اپوزیشن کے بغیر، ایوان اقبال میں پنجاب بجٹ پیش

گورنر کی جانب سے جاری آرڈیننس میں اجلاس بلانے اور ملتوی کرنے کا اختیار بھی سپیکر کی بجائے سیکریٹری قانون کو دے دیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت نے دو روز تک پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش نہ ہوسکنے کے بعد ایوان اقبال میں بدھ کو اجلاس بلا کر بجٹ پیش کردیا، مگر صوبے میں آئینی بحران کی صورت حال پھر بھی برقرار رہی۔

اب تک صوبائی وزیر خزانہ مقرر نہ ہونے کی وجہ سے سردار اویس لغاری نے بجٹ پیش کیا اور بجٹ تقریر کی۔

اس سے قبل گورنر پنجاب نے اسمبلی کے آزادانہ اختیارات ختم کرکے سیکریٹری پنجاب اسمبلی کو محکمہ قانون کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

گورنر کی جانب سے جاری آرڈیننس میں اجلاس بلانے اور ملتوی کرنے کا اختیار بھی سپیکر کی بجائے سیکریٹری قانون کو دے دیا گیا ہے۔

گورنر کے حکم پر ہی پنجاب کا بجٹ اجلاس اسمبلی کی بجائے ایوان اقبال میں رکھا گیا جہاں قائدِ ایوان حمزہ شہباز بھی شریک ہوئے جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما طاہر خلیل سندھو کے مطابق سپیکر چوہدری پرویز الہی اور سیکریٹری اسمبلی محمد خان بھٹی کو بجٹ اجلاس میں آنے کی دعوت دی گئی اور ایک گھنٹہ انتظار کے بعد اجلاس شروع کیا گیا۔

اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے کی جبکہ حکومتی اراکین نے اجلاس میں شرکت کی۔ دوسری جانب سپیکر چوہدری پرویز الہی نے گورنر کی جانب سے منسوخ کردہ 40 واں اجلاس جاری رکھا اور آج بھی سیشن کا اہتمام کیا گیا جس میں اپوزیشن اراکین نے شرکت کی۔

پی ٹی آئی رہنما میاں محمود الرشید نے خطاب کرتے ہوئے ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس کا انعقاد غیر قانونی قرار دیا اور عدالت سے رجوع کر کے اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔

جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما طاہر خلیل سندھو کے بقول: ’بجٹ اجلاس ایوان اقبال میں ہی بجٹ کی منظوری تک جاری رہے گا۔ اپوزیشن نے اختلاف کرنا ہے تو یہاں آکر اپنی تجاویز پر تحفظات جمع کراسکتے ہیں۔‘

حکومتی بجٹ اجلاس میں پہلی بار کسی شور شرابے کے بغیر بجٹ تقریر جاری رہے اور بجٹ پیش کیا گیا۔

بجٹ تجاویز

بجٹ دستاویز کے مطابق پنجاب کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 3,226 ارب روپے تجویز کیا جا رہا ہے۔

ترقیاتی پروگرام کے لیے 22 فیصد اضافے کے ساتھ 685 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں جبکہ کُل آمدن کا تخمینہ 2,521 ارب 29 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔

وفاقی قابل تقسیم محاصل سے پنجاب کو 2,020 ارب 74 کروڑ روپے آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

صوبائی محصولات کی مد میں پچھلے سال سے 24 فیصد اضافے کے ساتھ 500 ارب 53 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب ریونیو اتھارٹی کا ہدف 22 فیصد اضافے کے ساتھ 190 ارب روپے، بورڈ آف ریونیو کا ہدف 44 فیصد اضافے کے ساتھ 95 ارب روپے، محکمہ ایکسائز سے دو فیصد اضافے کے ساتھ 43 ارب 50 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔

نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 24 فیصد اضافے کے ساتھ 163 ارب 53 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال میں 435 ارب 87 کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں رکھے گئے ہیں جبکہ پینشن کی مد میں 312 ارب روپے اور مقامی حکومتوں کے لیے 528 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 685 ارب روپے ترقیاتی پروگرام کے لیے تجویز کیے گئے ہیں۔

ترقیاتی بجٹ کا 40 فیصد سوشل سیکٹر، 24 فیصد انفراسٹرکچر، چھ فیصد پروڈکشن سیکٹر اور دو فیصد سروسز سیکٹر پر مشتمل ہے۔

ترقیاتی بجٹ میں دیگر پروگرامز اور خصوصی اقدامات کے لیے 28 فیصد فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں پہلے سے جاری سکیموں کے لیے 365 ارب روپے مختص ہوئے ہیں۔

اسی طرح نئی سکیموں کے لیے 234 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں۔

41  ارب روپے دیگر ترقیاتی سکیموں کی مد میں مختص کیے جا رہے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی مد میں 45 ارب روپے مختص ہوئے ہیں۔

مجموعی بجٹ میں شعبہ صحت پر 485 ارب 26 کروڑ روپے مختص جبکہ 10 فیصد اضافی فنڈز بھی دستیاب ہوں گے۔

اسی طرح شعبہ تعلیم کے لیے مختص مجموعی بجٹ میں 428 ارب 56 کروڑ روپے تجویز کیے جا رہے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 1,712 ارب روپے جاری اخراجات کی مد میں رکھے جا رہے ہیں جو پچھلے سال سے 20 فیصد زیادہ ہیں۔

حکومت نے وزیر اعلیٰ عوامی سہولت پیکج کے تحت 200 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔

نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 24 فیصد اضافے کے ساتھ 163 ارب 51 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

435 ارب 87 کروڑ روپے تنخواہوں جبکہ 312 ارب روپے پینشن میں ادا ہوں گے۔ 528  ارب روپے مقامی حکومتوں کے  لیے مختص کیے گئے ہیں۔

شہری علاقوں میں پراپرٹی معاملات میں سٹامپ ڈیوٹی کی شرح کو ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے۔ برقی گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹوکن ٹیکس کی مد میں 95 فیصد رعایت کو جاری رکھا جا رہا ہے۔

موٹر گاڑیوں کے پر کشش نمبروں کی نیلامی کے لیے نظرثانی شدہ ای آکشن پالیسی کا اجرا بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔ پنجاب فنانس ایکٹ 2014 کے تحت پُرتعیش گھروں پر عائد کردہ لگژری ہاﺅس ٹیکس کے شیڈول میں رقبے کے لحاظ سے نئے ریٹ متعارف کروائے جا رہے ہیں۔

ٹیکس دہندگان کی سہولت کے لیے آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پراپرٹی ٹیکس اور ٹوکن ٹیکس کی یکمشت ادائیگی پر بالترتیب پانچ فیصد اور 10 فیصد رعایت جاری رکھی جا رہی ہے۔

ای پے کے ذریعے آن لائن ادائیگی پر صارف کو پانچ فیصد مزید رعایت جاری رکھی جائے گی۔

اویس لغاری نے اعلان کیا کہ رواں سال حکومت کی جانب سے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔

اجلاس کے انتظامات

بجٹ اجلاس کے مختصر وقت میں انتظامات کیے گئے اور ایوان اقبال میں اراکین کو ہال جبکہ پریس گیلری میں صحافیوں کو جانے کی اجازت دی گئی، شدید گرمی کے باعث اے سی کا انتظام بھی اضافی کیا گیا۔

اجلاس کے انتظامات لاہور انتظامیہ کے ذمہ تھے اس سلسلہ میں حکومتی رہنما طاہر خلیل نے بتایا کہ بجٹ کی کاپیاں بھی اسمبلی کی عمارت میں رہ گئیں اور اضافی کاپیاں منگوانا پڑیں اور انتظامات پر بھی دو سے اڑھائی کروڑ اضافی خرچ آیا ہے۔

ان کے مطابق: ’سپیکر چوہدری پرویز الہی نے بجٹ روکنے کی کوشش کرکے پنجاب کی عوام سے دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت