پنجاب میں ایک ہی وقت میں دو ایوان کیسے چل رہے ہیں؟

صوبہ پنجاب میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد بھی اسمبلی اجلاس کا تنازع وہیں کا وہیں ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ہی مدت میں دو مختلف اجلاس جاری ہیں۔

پنجاب میں ایک اجلاس ایوان اقبال جبکہ دوسرا پنجاب اسمبلی میں ہو رہا ہے۔ (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

صوبہ پنجاب میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد بھی اسمبلی اجلاس کا تنازع وہیں کا وہیں ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ہی مدت میں دو مختلف اجلاس جاری ہیں۔

آئینی طور پر گورنر پنجاب نے 40واں اجلاس منسوخ کر کے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایوان اقبال میں 41واں بجٹ اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، اور حکومت نے بھی سپیکر کے اختیارات محدود کرتے ہوئے سیکرٹری اسمبلی کو محکمہ قانون کے ماتحت کر دیا۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے قائم مقام سیکریٹری عامر حبیب نے آج آفس آرڈر جاری کیا ہے جس کے مطابق اسمبلی کے چار شعبوں کے سربراہان کو ایوان اقبال فوری رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

بجٹ اجلاس جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے کی اور سیکرٹری اسمبلی کے فرائض سیکرٹری قانون نے ادا کیے۔ دوسری جانب سپیکر نے گورنر کے آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن کی قرار داد پر ووٹنگ کروا کے اسے غیر موثر قرار دے دیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا دو ایوان چل سکتے ہیں۔ دونوں میں اخراجات بھی ہو رہے ہیں اور سیاست بھی کی جا رہی ہے، حکومتی اجلاس میں بجٹ پر کٹ موشن کی تحریکیں اور تجاویز پر نقطہ اعتراض جمع نہیں ہو سکیں گے کیونکہ یہ کام اپوزیشن کا ہے جو ایوان اقبال اجلاس میں شریک ہونے کو تیار نہیں۔

جبکہ اسمبلی میں جاری اجلاس میں قائد ایوان اور حکومتی اراکین کی موجودگی کے بغیر اجلاس بے مقصد سمجھا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں طرف سے ہی اجلاس کو غیر آئینی قرار دیا جا رہا ہے۔

چار شعبہ جات کو ایوان اقبال رپورٹ کرنے کا آرڈر

پنجاب اسمبلی کے چار شعبہ جات کو فوری ایوان اقبال رپورٹ کرنے کا آڈر جاری کر دیا گیا ہے۔

پنجاب اسمبلی کے قائم مقام سیکریٹری عامر حبیب نے آفس آرڈر جاری کیا ہے جس کے مطابق اسمبلی کا قانون سازی کا شعبہ، رپورٹنگ کا شعبہ، سٹیٹ کا شعبہ، اور اس کے علاوہ سکیورٹی کے شعبے کے سربراہان کو فوری رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

متعلقہ شعبےایوان اقبال میں ہونے والے اجلاس کے دوران ڈپٹی سپیکر کے روبرو پیش ہونے کے پابند ہوں گے۔ اسمبلی کی کارروائی کو رپورٹ کر کے اس کا قانونی مسعودہ تیار کر کے قائم مقام سیکریٹری اور سیکرٹری لا کے روبرو پیش کریں گے۔

ایوان اقبال کے بجٹ اجلاس کے دوران رپورٹ نہ کرنے والوں کے خلاف سخت انضباطی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

دونوں میں سے آئینی اجلاس کون سا ہے؟

بیان بازی کی حد تک تو حکومتی اور اپوزیشن رہنما ایک دوسرے پر غیر آئینی اجلاس کا الزام لگا رہے ہیں مگر آئینی طور پر صورتحال واضح ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئینی طور گورنر نے پنجاب کا بجٹ دو دن تک پیش کرنے کی اجازت نہ دینے پر اپنے اختیارات استعمال کیے اور آئین کے آرٹیکل 128 کے تحت آرڈیننس جاری کیا۔

گورنر نے بدامنی کے پیش نظر اجلاس کا مقام تبدیل کیا جہاں سپیکر کو اجلاس کی صدارت کے لیے اور سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی کو ڈیوٹی کے لیے جانا لازم تھا مگر وہ نہیں پہنچے تو ڈپٹی سپیکر نے صدارت جبکہ سیکرٹری قانون احمد رضا سرور نے فرائض انجام دیے۔

شہزاد شوکت کے بقول سپیکر کو آئین نے یہ اختیار دیا ہے اور کابینہ نے سپیکر کے لامحدود اختیارات واپس لے کر اجلاس بلانے اور ملتوی کرنے کا اختیار بھی محکمہ قانون کے حوالے کر دیے ہیں۔

اب آئینی اجلاس تو ایوان اقبال میں جاری ہے مگر سپیکر صرف سیاسی طور پر اسمبلی میں اجلاس کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ آئین میں اس کی اجازت موجود نہیں، تاہم حکومت لڑائی جھگڑے سے بچنے کے لیے ان کے اجلاس کو طاقت سے روکنے کا اختیار استعمال نہیں کر رہی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق اسمبلی میں بلاجواز اور خلاف قانون اجلاس سے سرکاری وسائل کا ضیاع کیا جا رہا ہے جو کروڑوں میں بنتا ہے۔

’دوسرا یہ کہ اپوزیشن اراکین اپنی حاضری اسمبلی میں لگا رہے ہیں، وہ حاضری تسلیم نہیں ہوسکتی اور قانونی طور پر ٹی اے ڈی اے یا الاؤنسز وصول نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے کہا کہ جو اسمبلی اجلاس پر کروڑوں کے اخراجات ہو رہے ہیں ان کا احتساب ہو سکتا ہے اور قانون اپنا راستہ ضرور بنائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لیے بھی حکومت کے پاس 186 اراکین کی حمایت موجود ہے جن پر 63 اے کا اطلاق بھی ممکن نہیں کیونکہ سپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس سے اس بارے میں موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ردعمل دینے سے گریز کیا۔

 

سپیکر اور اپوزیشن کی حکمت عملی

چوہدری پرویز الہی نے دو دن سے بجٹ پیش کرنے کی جازت نہیں دی تھی مگر جیسے ہی منگل کی رات گورنر نے آرڈیننس جاری کیا تو فوری بجٹ پیش کرنے کی اجازت دے دی مگر پھر حکومت نے پیش نہیں کیا۔

سپیکر نے گورنر کے آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن کی قرارداد پر ووٹنگ کرا کے اسے غیر موثر بھی قرار دیا مگر ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق اس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کو پنجاب اسمبلی کے اختیارات محدود کرنے کے لیے آرڈیننس جاری کرنے پر صدر مملکت اور گورنر پنجاب کو خط بھی لکھا ہے۔

پی ٹی آئی کی رکن پنجاب اسمبلی زینب عمیر کی جانب سے بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ گورنر پنجاب نے پنجاب اسمبلی کا 40 واں سیشن ختم کرتے ہی 41 واں سیشن فوری بلا لیا جو کہ پنجاب اسمبلی کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔

خط میں سیکرٹری پنجاب اسمبلی کی جگہ سیکریٹری قانون کو اختیارات دینے پر اعتراض اٹھایا گیا اور اسے اختیارات سےتجاوز قرار دیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ گورنر نے ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس غیر قانونی طور پر بلایا، گورنر پنجاب کی انتظامی اختیارات اور امور میں مداخلت بھی غیرقانونی ہیں، گورنر پنجاب فوری طور غیر قانونی آرڈیننس واپس لیں جبکہ خط میں صدرپاکستان سےگزارش کی گئی ہے کہ گورنر پنجاب کو عہدے سے ہٹایا جائے۔

زینب عمیر نے خط میں لکھا ہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کے دستخط سے جاری ہونے والے آرڈیننس میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی گئی۔

نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا جس کے تحت جب بھی گورنر، سپیکر یا حکومت پنجاب کے سیکرٹری اجلاس طلب کریں گے تو محکمہ قانون و پارلیمانی امور اسمبلی میں اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب سیکریٹریٹ سروس ایکٹ 2019 کے نویں حصے کے ساتھ ساتھ دو مزید ایکٹ بھی ختم کر دیے گئے۔

ان تبدیلیوں کے بعد پنجاب اسمبلی کی خودمختار حیثیت ختم کر دی گئی اور اب اسمبلی، وزارت قانون کے ایک ذیلی ادارے کے طور پر کام کرے گی جبکہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی کو وزارت قانون کے ماتحت کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ایوان اقبال میں بلائے گئے اجلاس کے اہتمام پر بھی مسلم لیگ ن کے رہنما طاہرخلیل سندھو کے مطابق اڑھائی کروڑ روپے خرچہ آرہا ہے۔

دوسری جانب اسمبلی کے سینکڑوں ملازمین وہاں ڈیوٹی دے رہے ہیں جبکہ ضلعی محکموں کے افسران اور ملازمین ایوان اقبال اجلاس کے دوران الگ سے ڈیوٹی دینے پر مجبور ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست