پاکستان کی معاشی مشکلات اور 55 اراکین کی وفاقی کابینہ

وزیراعظم کی کابینہ میں 34 وفاقی وزرا، چھ وزرائے مملکت اور 11 معاونین شامل ہیں، جبکہ انہوں نے چار مشیران بھی مقرر کر رکھے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف 21 جون 2022 کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کی سربراہی کر رہے ہیں (تصویر: پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ فیس بک)

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو مزید تین معاونین خصوصی کی تعیناتی کی، جس سے ان کی کابینہ میں وزرا، معاونین اور مشیران کی کل تعداد 55 ہوگئی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ایک طرف تو حکومت معاشی مشکلات اور اخراجات میں کمی کرنے کی بات کرتی ہے تو وہیں وفاقی کابینہ میں اراکین کی تعداد بڑھا رہی ہے، جن کی تنخواہیں اور مرعات قومی خزانے سے ہی دی جاتی ہیں۔ عام لوگ پوچھتے ہیں کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال عوام کو چائے کم پینے کی تلقین کرتے ہیں لیکن کابینہ کا حجم کم کرنے کو تیار نہیں۔

وزیراعظم کی کابینہ میں 34 وفاقی وزرا، چھ وزرائے مملکت اور 11 معاونین شامل ہیں، جبکہ انہوں نے چار مشیران بھی مقرر کر رکھے ہیں۔  

حکومتوں میں وزیراعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی کو وفاقی وزرا یا وزرائے مملکت کا درجہ بھی دیا جاتا ہے، اور اس روایت پر پاکستان مسلم لیگ ن کی موجودہ اور پاکستان تحریک انصاف کی سابق وفاقی حکومتوں نے بھی عمل کیا۔ 

سیاسی تجزیہ كار حسن عسكری كے خیال میں معاون خصوصی كا عہدہ محض ذاتی پسند ناپسند كی بنیاد پر پیدا كیا اور دیا جاتا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان كا كہنا تھا كہ اتنے زیادہ معاونین خصوصی ركھنے كی خاطر خواہ وجہ نظر نہیں آتی۔  

تاہم انہوں نے کہا کہ ’تکنیکی طور پر اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ وزیراعظم كا استحقاق ہے، اور قانون انہیں معاونین خصوصی مقرر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔‘

موجودہ وفاقی کابینہ کے اراکین، مشیروں اور معاونین خصوصی کی کل تعداد تقریباً اتنی ہی بنتی ہے جتنی سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں تھی۔ 

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت پر دوسرے اعتراضات کے علاوہ بڑی کابینہ اور وزیراعظم کے معاونین خصوصی کی ’غیرضروری فوج‘ رکھنے کے باعث بھی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ 

تحریک انصاف دور حکومت میں اراکین وفاقی کابینہ کی کل تعداد زیادہ سے زیادہ 32 رہی، جن میں 28 وفاقی وزرا اور چار وزرائے مملکت رہے، جبكہ عمران خان نے پانچ مشیران بھی مقرر كیے تھے۔ 

سابق وزیراعظم عمران خان کے معاونین خصوصی کی ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ تعداد ایک درجن سے زیادہ بھی رہی، جن میں اکثریت غیرمنتخب افراد کی تھی۔ 

وفاقی کابینہ 

وفاقی سطح پر وزارتیں ہوتی ہیں، اور ہر وزارت کے سربراہ کے فرائض وفاقی وزیر انجام دیتا ہے، جبکہ زیادہ اہم وزارتوں کے لیے وزرائے مملکت بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ 

وزیر مملکت کو جونیئر وزیر بھی کہا جا سکتا ہے، جو وزارت کا کاروبار چلانے میں وفاقی وزیر کی معاونت کرتا ہے۔ 

دستور پاکستان کے آرٹیکل 90 کے مطابق وزرا پر مشتمل کابینہ کے سربراہ وزیراعظم ہوں گے، جو صدر کو ان کے کاموں کی انجام دہی میں مدد اور مشورہ دے گی، جبکہ کابینہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے آگے جواب دہ ہوگی۔ 

آئین کا آرٹیکل 92 وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی تعیناتی کا طریقہ بتاتا ہے، جس کے مطابق وزیراعظم کے مشورے پر صدر مملکت پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اراکین کی ان عہدوں پر تقرری کریں گے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ایوان بالا (سینیٹ) سے لیے گئے وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی تعداد ہاؤس کے اراکین کی کل تعداد کے ایک چوتھائی سے زیادہ ہونے پر آئین پابندی لگاتا ہے، جبکہ کابینہ میں وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی کل تعداد پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اراکین کی مجموعی تعداد کے 11 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ 

آرٹیکل 57 کے تحت وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کو پارلیمان کے کسی بھی ایوان یا دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس یا کسی بھی ایوان کی کسی کمیٹی کی کارروائی میں شرکت اور بات کرنے کا حق دیتا ہے۔ 

وفاقی حکومت کے ضوابط (رولز آف بزنس 1973) کے تحت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صرف وفاقی وزرا ہی شرکت کر سکتے ہیں تاہم وزرائے مملکت کو وزیراعظم خصوصی دعوت کے ذریعے مدعو کر سکتے ہیں۔ 

مشیران 

آئین پاكستان کی رو سے وفاقی کابینہ صرف وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت پر مشتمل ہوتی ہے۔ تاہم آئین کا آرٹیکل 93 وزیراعظم کو اپنے لیے مشیران کی تقرری کا حق دیتا ہے، جن کی زیادہ سے زیادہ تعداد پانچ ہو سکتی ہے۔ 

وزیراعظم عام طور پر کسی وفاقی وزارت سے متعلق مشورے کی غرض سے مشیر کو تقرر کر سکتے ہیں۔   

اسی آرٹیکل کے تحت وزیراعظم کے مشیران پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور ان کی کمیٹیوں (جن کے وہ رکن مقرر کیے جائیں) میں شرکت اور بات کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ 

اگرچہ وزیراعظم کے مشیر پارلیمان کے ایوانوں اور ان کی کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت اور بات کرنے کا حق تو رکھتے ہیں، تاہم آئین ان کا ذکر کابینہ کے تحت (آرٹیکل 92 میں) نہیں کرتا۔ 

رولز آف بزنس 1973 کی شق 20 کے تحت وزیراعظم کے مشیر بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صرف ضرورت کے تحت خصوصی دعوت پر ہی شرکت کر سکتے ہیں۔  

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2020 کے ایک فیصلے میں وضاحت کر دی ہے کہ وزیراعظم کے مشیر وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہو سکتے، اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صرف مخصوص حالات میں خصوصی دعوت پر ہی شرکت کر سکتے ہیں۔ 

عدالت کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم کے مشیر کو جس ڈویژن کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے وہاں وہ پالیسی سازی کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتے، جو صرف وزیراعظم اور وفاقی وزیر کا استحقاق ہے۔ 

وزیراعظم کے معاون خصوصی 

وفاقی سطح پر وفاقی وزارتیں ہوتی ہیں، اور ہر وزارت کو انتظامی مقصد کی خاطر ڈویژنز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 

وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس کے تحت وزیراعظم کسی بھی ڈویژن سے متعلق مشوروں کی خاطر اپنے معاون خصوصی کو تقرر کر سکتے ہیں، جن کی قانون میں کوئی تعداد مقرر نہیں ہے۔ 

معاون خصوصی وفاقی کابینہ کا حصہ تو نہیں ہوتے تاہم وزیراعظم کی خصوصی دعوت پر اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں۔ 

سیاسی تقرریاں 

عام طور پر وزیراعظم کے مشیر اور معاون خصوصی کے عہدوں پر من پسند افراد یا چھوٹی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کو کو تعینات کیا جاتا ہے۔ 

تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں: ’اصولاً مشیر اور معاون خصوصی کے عہدوں پر ٹیکنوکریٹس کی تقرری کی جانی چاہیے جو وزیراعظم کو اس مخصوص شعبے سے متعلق مشورہ دے سکیں۔ لیکن عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے، یہ سیاسی عہدے بن کر رہ گئے ہیں، جن پر وزیراعظم اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر تقرریاں کرتے ہیں۔‘

وزیراعظم قومی اسمبلی میں اپنے حمایتیوں کو خوش کرنے کے لیے بھی انہیں نوازنے کی خاطر مشیر یا معاون خصوصی بناتے ہیں۔ 

وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے علاوہ چھوٹی بڑی 10 دوسری جماعتوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ 

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پارلیمان میں سیاسی حلیفوں کی تعداد موجودہ حکومت کے حمایتیوں سے کم تھی، تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے زیادہ معاونین خصوصی کو تقرر کیا۔ 

حسن عسکری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو جو تین معاونین خصوصی کی تعیناتی کی ہے وہ ایک توازن برقرار رکھنے کا کھیل ہے۔ 

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے چھوٹے سیاسی حمایتیوں کو خوش کرنے کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ عام طور پر جو حلیف جماعتیں پارلیمان میں نمائندگی نہیں رکھتیں انہیں نوازنے کی خاطر ان کے نمائندوں کو مشیر اور معاون خصوصی بنا دیا جاتا ہے۔

وسائل کا ضیاع؟

2019 میں کیبینٹ ڈویژن نے قومی اسمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ہر وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کے مشیر کو ماہانہ چار لاکھ 48 ہزار روپے تنخواہ کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں جبکہ ایک لاکھ روپے مکان کے کرائے کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ 

اسی طرح جواب میں بتایا گیا تھا کہ وزیر مملکت کو بھی چار لاکھ روپے سے زیادہ ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ میڈیکل اور سرکاری دوروں کے اخراجات کی مد میں بھی ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ 

وزیراعظم کے معاون خصوصی کی تنخواہ کا تعین ان کے درجے کے مطابق کیا جاتا ہے، یعنی وفاقی وزیر کا درجہ رکھنے والے معاون خصوصی کو وفاقی وزیر کی تنخواہ اور وزیر مملکت کا درجہ رکھنے والے معاونین کو ان کے مطابق اجرت اور دوسرے فوائد دیے جاتے ہیں۔ 

حسن عسکری کا کہنا تھا کہ یہ وسائل کے ضیاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ معاونین خصوصی اور مشیران حکومت یا ریاست کے کاروبار میں اتنا فائدہ نہیں پہنچا پاتے جتنی وہ تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ 

پی ڈی ایم کی حکومت ملک کی بری معاشی صورت حال کے باعث عوام کو اخراجات کم کرنے کی تلقین کر رہی ہے تاہم دوسری طرف عام عوام پوچھتی ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں، جو باقاعدگی سے ہر ہفتے منعقد ہوتے ہیں، صرف چائے کا خرچہ بھی ہوش ربا ہو سکتا ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان