پی ٹی آئی کے فضل مولا سوات میں ’کامیاب‘: الیکشن کمیشن

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 7 پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں الیکشن کمیشن کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حاجی فضل مولا نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حاجی فضل مولا (تصویر: حاجی فضل مولا/ فیس بک)

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 7 پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں الیکشن کمیشن کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حاجی فضل مولا نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حاجی فضل مولا نے 17395 ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ ان کے مخالف عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار حسین احمد خان 14604 ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے 7 پر اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ضلع سوات سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 7 کے تمام 124 پولنگ سٹیشنز کے غیر حتمی نتائج کے مطابق کل 33573 ووٹ ڈالے گئے جن میں سے مردوں کی جانب سے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 27553 رہی جبکہ خواتین نے 6020 ووٹ کاسٹ کیے۔

اس ضمنی انتخاب میں دلچسپ بات یہ تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار حسین احمد خان، جو نواب خان کاکا کے نام سے مشہور ہیں، کے خلاف جمعیت علمائے اسلام، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ سمیت چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے اور سب نے اے این پی کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

ضمنی انتخاب میں صرف پی ٹی آئی نے اے این پی کے خلاف اپنے امیدوار حاجی فضل مولا کو کھڑا کیا، تاہم ایک آزاد امیدوار اور ایک تحریک انقلاب کا امیدوار بھی میدان میں اترا تھا۔

تحریک انقلاب سیاسی تحریک کے امیدوار دولت خان نے 103 جبکہ واحد آزاد امیدوار محمد علی شاہ کو 701 ووٹ پڑے۔

اے این پی کے امیدوار کا خاندان دہشت گردی کی وجہ سے بہت بڑی قربانیاں دے چکا ہے، جس کے باعث علاقے اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر بھی شامل ہے۔

یہ انتخاب پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ ہو رہے ہیں تاہم خیبر پختونخوا میں اب بھی پی ٹی آئی کی حکومت قائم  ہے۔ اس حلقے میں 2018 کے عام انتخابات میں اے این پی کے وقار خان کامیاب ہوئے تھے جو دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے چل بسے۔

اس سے پہلے اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امجد ملک کامیاب ہوئے تھے، لیکن چونکہ امجد ملک دو نشستوں پر الیکشن جیتے تھے، لہذا انہیں یہ نشست خالی کرنا پڑی اور پھر ضمنی الیکشن میں اے این پی کے وقار خان انتخاب جیت گئے تھے۔

سیاسی جماعتوں نے اے این پی کے خلاف امیدوار کیوں کھڑا نہیں کیا؟

سوات کے ضمنی الیکشن میں سیاسی جماعتوں نے اے این پی کے خلاف امیدوار کھڑے نہ کرنے کی ایک وجہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہونا بتایا ہے، جبکہ اس میں اے این پی کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر بھی شامل ہے۔

جمیعت علمائے اسلام کے صوبائی ترجمان عبد الجلیل جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اے این پی نے حمایت کے لیے جرگہ بھیجا تھا اور جے یو آئی نے فیصلہ کیا کہ وہ اے این پی کی حمایت کرے گی۔

جلیل جان نے بتایا: ’حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ اے این پی چونکہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہے اور اس سیٹ کے لیے سابق رکن اسمبلی وقار خان کے خاندان کے فرد کو ترجیح دی گئی ہے، تو اس میں ہمدردی کا عنصر بھی شامل ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہم نے اے این پی کا جرگہ قبول کیا تھا اور ان کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔‘

اسی حوالے سے جب خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن اسمبلی اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنما اختیار ولی سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی وجہ بتائی اور کہا: ’چونکہ ہم متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہیں اور اس میں یہ عنصر بھی شامل ہے کہ اس خاندان نے دہشت گردی کے دور میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اور لوگوں کی بھی ان کے ساتھ ہمدردیاں ہیں۔‘

اختیار ولی نے بتایا: ’جمہوریت اور صوبے کی روایات کا تقاضہ یہی ہے کہ ایسی صورت میں خاندان کے ساتھ ہمدردی میں امیدوار کھڑا نہیں کرنا چاہیے۔ اب پی ٹی آئی نے امیدوار کھڑا کیا ہے لیکن پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ فتنہ فساد کی جماعت ہے، جنہیں روایات کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔‘

مزید پڑھیے: ضلع ہنگو کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت

جماعت اسلامی متحدہ اپوزیشن کا حصہ تو نہیں ہے لیکن انہوں نے بھی اے این پی کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے صوبائی ترجمان میاں صہیب الدین کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم متحدہ اپوزیشن کا حصہ نہیں ہیں لیکن اس خاندان کے احترام اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’اس خاندان کی قربانیاں ہیں اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔ ہم ان کے لیے کوئی انتخابی مہم نہیں چلا رہے لیکن اے این پی کا جرگہ آیا تھا اور ہم نے ان کے مقابلے میں امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ یہ ہماری صوبے کی سیاسی روایت ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں ہمدردی کے طور پر خاندان کو سپورٹ دیا جاتا ہے۔‘

اے این پی امیدوار کے خاندان کی کہانی کیا ہے؟

اے این پی نے ضمنی انتخاب میں حسین احمد خان عرف نواب خان کو ٹکٹ دیا ہے۔ نواب خان مرحوم وقار خان کے چچا تھے جو اس سے قبل یہی سیٹ جیت چکے ہیں۔

اس خاندان کا تعلق سوات کی تحصیل کبل ہے، جو شدت پسندی کے دور میں بہت متاثر ہوا ہے۔ سوات سے فون پر بات کرتے ہوئے خان نواب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’شدت پسندی کے دور میں ان کے دو بھتیجوں سمیت سات افراد کو باپ کے سامنے کھڑا کیا گیا اور باپ سے پوچھا گیا کہ کون سا بیٹا آپ کو بہت پیارا ہے تاکہ اس کو پہلے مار دیا جائے۔‘

’شدت پسندوں کی جانب سے پوچھنے پر باپ نے جواب دیا کہ بیٹوں کو مارنے سے پہلے ان کو مار دیں، لیکن شدت پسندوں نے پہلے بیٹوں کو اور بعد میں ان کے والد کو قتل کیا۔ ایسا کفر کے نظام میں بھی نہیں ہوتا جو ان کے خاندان کے ساتھ ہوا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا ضمنی انتخابات میں ’ارطغرل بابا‘ امیدوار 

خان نواب نے دیگر پارٹیوں کے بارے میں بتایا کہ وہ اور ان کی سیاسی جماعت تمام جماعتوں کی مشکور ہیں جنہوں نے ہمدردی کی خاطر اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے لیکن پی ٹی آئی نے کھڑا کیا، لہذا وہ ان کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔

خان نواب نے بتایا، ’ہم نے پوری عمر عوامی سیاست کی ہے اور عوام کے لیے ہمارے خاندان نے قربانی دی ہے تاکہ امن قائم ہو۔‘

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اس حلقے میں مجموعی ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 83 ہزار سے زائد ہے، جن میں مرد ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ دو ہزار سے زائد جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 81 ہزار سے زائد ہے اور ووٹنگ کے لیے کل 124 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان