دل کے عارضے میں مبتلا چھ سالہ بیٹے کی زندگی کے لیے لڑتی ماں

ثنیہ دل کے عارضے میں مبتلا چھ سالہ فائز کی والدہ ہیں، جو امریکہ میں فائز کے علاج کے لیے رقم جمع کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہیں۔

ثنیہ نے بتایا کہ فائز وقت سے پہلے پیدا ہوا اور پیدائش سے 18 دن پہلے ہی انہیں بتایا گیا کہ ان کے بچے کو دل کا عارضہ ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

’میں تو فائز کو بالکل اپنے دوسرے بچوں کی طرح دیکھنا چاہتی ہوں۔ جب یہ چھوٹا تھا تو میں سوچتی تھی کہ معلوم نہیں یہ کبھی ان کے ساتھ کھیل سکے گا یا نہیں۔

’میں کیا کروں گی؟ یہ اس عمر تک پہنچے گا یا نہیں پہنچے گا، مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا۔ مگر اللہ کی مرضی سے اب تک کا وقت نکل گیا ہے۔‘

اپنے بیٹے کی بیماری کا ذکر انڈپینڈنٹ اردو سے کرتے ہوئے ثنیہ اسد کی آواز بار بار بھر آتی تھی۔ وہ پھر مشکل سے بات آگے بڑھاتیں۔

 ثنیہ دل کے عارضے میں مبتلا چھ سالہ فائز کی والدہ ہیں، جو امریکہ میں فائز کے علاج کے لیے رقم جمع کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہیں۔ 

ثنیہ نے بتایا کہ فائز وقت سے پہلے پیدا ہوا اور پیدائش سے 18 دن پہلے ہی انہیں بتایا گیا کہ ان کے بچے کو دل کا عارضہ ہے۔

تب سے ثنیہ اور ان کے خاندان کا امتحان شروع ہو گیا۔

ثنیہ کو امید نہیں تھی کہ وہ فائز کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں گی۔ مگر فائز دنیا میں آئے اور ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ فائز کے دل کے چاروں چیمبرز مکمل نہیں بنے ہوئے۔  

 فائز کی پیدائش سے اب تک ان کا علاج کرنے والے ان کے ڈاکٹرسید خزیمہ ارسلان بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’دل میں چار چیمبرز ہوتے ہیں۔ فائز کے چیمبرز پوری طرح نہیں بنے ہوئے۔ آپ جانتے ہیں کہ دل نے ہی پورا خون پمپ کرنا ہوتا ہے تو وہ پوری طرح نہیں کرتا اور خون کی بڑی تعداد اس کے پھیپھڑوں کی طرف چلی جاتی ہے، اس وجہ سے اس کے پھیپھڑوں پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دل تھک جائے گا۔ اور دل تھک گیا تو واپسی ممکن نہیں ہوگی۔‘

ثنیہ کہتی ہیں: ’فائز کو اڑھائی برس کی عمر میں سرجری کا کہا گیا تھا کیونکہ وقت سے پہلے پیدا ہونے کی وجہ سے وہ کمزور تھے اس لیے ڈاکٹر نے تھوڑا انتظار کے بعد سرجری کا کہا لیکن جب سرجری کے لیے گئے تو ڈاکٹرز نے سرجری نہیں کی کیونکہ وجہ وہ ہی تھی کہ ان کے پھیپھڑوں پر دباؤ زیادہ تھا اور فائز کا دل سرجری کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔‘

ڈاکٹر خزیمہ نے بتایا: ’اسی دباؤ کی وجہ سے فائز کو پھیپھڑوں کے امراض بھی لاحق ہیں اور دل کے چیمبرز کی وجہ سے ان کو دل کے بھی مختلف مسائل کا سامنا ہے۔‘

ثنیہ کہتی ہیں: ’فائز کھیل نہیں سکتا، وہ سکول نہیں جاتا، ڈاکٹروں نے سختی سے منع کر رکھا ہے کہ وہ کہیں گرے نہ اور نہ ہی اسے رلایا جائے۔ ایسی صورت حال میں فائز کی سانس پھول جاتی ہے، جبکہ ہونٹ اور ناخن نیلے پڑ جاتے ہیں۔‘

ثنیہ نے بتایا کہ پاکستان میں انہوں نے مختلف ڈاکٹروں سے بات کی مگر یہاں جو علاج ڈاکٹروں نے بتایا وہ مستقل نہیں ہے ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق فائز کو biventricular repair کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان میں single ventricle سرجری ممکن ہے۔ اس لیے انہوں نے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کچھ ڈاکٹروں سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے بھی رپورٹس تو منگوا لیں مگر پھر ثنیہ کو جواب نہیں دیا۔

لیکں بطور ایک ماں ثنیہ نے ہمت نہ ہاری اور تحقیق شروع کی۔ ڈاکٹر خزیمہ نے بتایا کہ ثنیہ فائز کو لکے کر آغا خان ہسپتال بھی گئیں وہاں انہیں معلوم ہوا ہ امریکہ کے شہر بوسٹن میں فائز کی نوعیت کی دل کی بیماری کے کچھ کامیاب آپریشن ہوئے ہیں۔ 

ثنیہ نے بتایا کہ انہوں نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہاں وہ دل کے پورے چیمبر بناتے ہیں۔ ’بے شک وہ اس طرح نہیں ہوتے جو اللہ نے تخلیق کیے مگر وہ کافی حد تک اصل کے قریب ہوتے ہیں۔ اور اس سے بچے کی زندگی کا معیار بہتر ہو جاتا ہے۔‘

ثنیہ نے وہاں کے ڈاکٹرسیتا رام امانی سے رابطہ کیا اور انہیں فائز کی رپورٹس بھیجیں۔ انہوں نے فائز کی رپورٹس پر مثبت جواب دیا اور والدین کو امید کی کرن دکھائی دی۔ 

ثنیہ نے بتایا کہ امریکہ میں فائز کے علاج کا تخمینہ ہسپتال نے ساڑھے پانچ سے چھ کروڑ روپے لگایا ہے۔ ’ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ لیکن میں اس کو چھوڑ نہیں سکتی۔ مجھے پتہ ہے کہ اس کا علاج ہو سکتا ہے۔ تو میں اس کو ایسے نہیں چھوڑ سکتی۔ میں اپنے بچے کو بچانے کی اپنی پوری کوشش کروں گی۔‘

ثنیہ نے کچھ این جی اوز سے رابطہ کیا مگر انہیں معلوم ہوا کہ پاکستان میں بچوں کے علاج کے لیے کام کرنے والی این جی اوز ملک سے باہر علاج کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔

اب ثنیہ کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ تھا لوگوں سے مدد مانگنے کا۔ ثنیہ نے اس کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

انہوں نے انسٹا گرام اور فیس بک پر Faiz the heart fighter کے نام سے ایک پیج بنایا اور اپنے بچے کے لیے فنڈز کی اپیل کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس فنڈ ریزنگ سے اب تک جتنے پیسے اکٹھے ہوئے ہیں وہ بالکل بھی کافی نہیں۔

ثنیہ کہتی ہیں کہ انہیں یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ کہیں وقت ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔

انہوں نے پنجاب حکومت سے بھی مدد کی اپیل کر رکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’میں ہمت نہیں ہاروں گی۔ میرا دکھ وہی والدین جان سکتے ہیں جو خود کسی بیمار بچے کو پال رہیں ہیں۔ لیکن میں پر امید ہوں کہ اللہ نے اب تک فائز کو سلامت رکھا، جس کا مطلب ہے کہ اللہ نے اس کی زندگی لکھی ہے اور مجھے یقین ہے کہ انشااللہ خدا میرے بچے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور بنائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت