عبادت گزاروں کا ایک دھائی سے منتظر شام کا ویران چرچ

جنگ اور کرونا وبا کے باعث بند ’سینٹ موسیس ایتھوپیا‘کو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے بعد زائرین کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا۔

شام کے صحرا میں واقع خانقاہ کبھی بین المذاہب مکالمے کا مرکز ہوا کرتی تھی اور یہاں ہزاروں افراد کھنچے چلے آتے تھے لیکن ملک میں جاری جنگ اور کرونا وبا کے بعد یہ خانقاہ بند پڑی تھی۔

تاہم ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے بعد بالآخر اس خانقاہ کو زائرین کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

فادر جہاد یوسف نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم لوگوں کی واپسی کے لیے بے چین ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایک پھر یہاں ہمارے ساتھ دعا اور مراقبے میں شامل ہوں تاکہ انہیں پرسکون، خاموشی اور غور و فکر کے لیے جگہ میسر ہو سکے۔‘

2010  میں 30 ہزار لوگوں نے دمشق کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر دور ایک بنجر، پتھریلی پہاڑی پر واقع ساتویں صدی کی اس خانقاہ، جسے دیر مار موسیٰ الحبشی (سینٹ موسیس ایتھوپیا) کہا جاتا ہے، پر حاضری دی تھی۔

لیکن 2011 میں خانہ جنگی کے آغاز اور فادر پاؤلو ڈیل اوگلیو کی گمشدگی نے تقریباً ایک دہائی تک زائرین کو خوف زدہ کیے رکھا۔

علاقے میں سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہونے کے بعد خانقاہ نے اس ماہ اپنے دروازے زائرین کے لیے دوبارہ کھول دیے ہیں۔

رومن ٹاور کے کھنڈرات پر بنی اور جزوی طور پر چٹان میں کھدی ہوئی اس خانقاہ تک پہنچنے کے لیے زائرین کو 300 سیڑھیاں چڑھنا ہوں گی۔

اس میں 11ویں صدی کا چرچ بھی قائم ہے جس میں قدیم دیواروں پر نقش و نگار اور عربی، سریانی اور یونانی زبانوں میں تحریریں کندہ ہیں۔

ان تحریروں میں ’خدا محبت ہے‘ اور ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘ بھی شامل ہیں۔

بقائے باہمی کی علامت

پاؤلو ڈیل اوگلیو نے خانقاہ میں بین المذاہب سیمینار کی میزبانی کی تھی جہاں عیسائی اقلیت اپنی دعا اور مسلمان ان کے شانہ بشانہ نماز ادا کرتے تھے۔

اس عمل نے اسے بقائے باہمی کی علامت میں تبدیل کر دیا جس نے تین دہائیوں تک تمام مذاہب کے زائرین اور عبادت گزاروں کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا۔

اطالوی پادری ڈیل اوگلیو کو 2012 میں حکومت مخالف اور بڑے پیمانے پر بغاوت کی حمایت کرنے پر شام سے نکال دیا گیا تھا لیکن وہ ایک سال بعد واپس آنے کے بعد 2013 کے موسم گرما میں لاپتہ ہو گئے۔ انہیں مبینہ طور پر داعش نے اغوا کیا تھا۔

ڈیل اوگلیو کا بین المذاہب بقائے باہمی کا نظریہ داعش کی عدم برداشت قاتلانہ طرز عمل اور انتہا پسندی کے بالکل برعکس تھا۔

لاپتہ ہونے کے فوراً بعد انہیں پھانسی دے دی گئی اور ان کی لاش کو ایک چٹانی دڑار میں پھینک دیا گیا لیکن کسی بھی فریق کی طرف سے اس موت کی تصدیق نہیں کی گئی۔

یوسف نے کہا: ’ممکنہ طور پر داعش نے انہیں اغوا کیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا ہیں یا مار دیے گئے ہیں۔‘

یوسف نے مزید کہا کہ کسی بھی گروپ یا فرد نے تاوان کا مطالبہ کرنے کے لیے خانقاہ سے رابطہ نہیں کیا۔

ایک فرار

2015  میں شامی شہر حمص کے قریبی دیہی علاقوں میں دو سال تک جہادیوں کے کنٹرول کے بعد خانقاہ داعش کے حملوں کی زد میں آ گئی۔

یوسف نے کہا: ’ہمیں خوف تھا کہ ہمیں کسی بھی وقت اغوا یا قتل کر دیا جائے گا خاص طور پر جب داعش قریبی گاؤں القریاطین میں پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے مسیحی برادری کے گروپوں کو اغوا کر لیا۔‘

داعش نے 2015 میں خانقاہ کے سابق سربراہ جیک مراد کو القریاطین سے کئی ماہ تک اغوا کیے رکھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

داعش نے قریبی گاؤں میں ایک خانقاہ کو مسمار کر دیا اور سینکڑوں عیسائیوں کو ایک قیدخانے میں بند کر دیا۔

بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا لیکن مسیحی برادری جو کبھی القریاطین میں سینکڑوں کی تعداد میں آباد تھی اب ان کی تعداد دو درجن سے بھی کم رہ گئی ہے۔

یوسف نے مزید کہا کہ جنگ کے عروج پر صحرائی خانقاہ خالی تھی اور بعد میں کرونا وبا کی وجہ سے۔

امریکی حمایت یافتہ مقامی فورسز نے تین سال قبل مشرقی شام میں داعش کو شکست دی تھی جب کہ شامی حکومت کے دستوں نے روس اور ایران کی حمایت سے باغیوں کے بہت سے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔

یوسف نے خانقاہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا: ’یہ ایک سادہ خانقاہ ہے جو آسائشوں سے خالی ہے۔ یہاں کوئی انٹرنیٹ یا موبائل کوریج نہیں جس سے شہر جیسی ہلچل والی زندگی سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔‘

تین منزلہ خانقاہ میں دو راہب، ایک راہبہ اور دو پوسٹولنٹ رہتے ہیں اور یہاں جس میں زائرین کے لیے کمرے، پرندوں کا فارم، اور ایک وسیع لائبریری شامل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا