اسلام آباد میں قائم خواجہ سراؤں کے مذہبی مرکز میں پہلی مرتبہ عیدالاضحیٰ پر قربانی کا جانور ذبح کرکے گوشت مقامی خواجہ سراؤں تک پہنچایا گیا۔
خواجہ سرا اور سماجی ایکٹویسٹ نایاب علی کے مطابق: ’عید قربان پر اب خواجہ سراؤں کے چولہے لوگوں کے انتظار میں ٹھنڈے نہیں پڑے رہیں گے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو یہ بھی بتایا کہ قصائی پہلے تو ان کی جنس کی وجہ سے جانور ذبح کرنے کے لیے رضامند نہیں ہوتے تھے اور جب کبھی قصائی ملتے تھے تو وہ زیادہ پیسوں کا مطالبہ کرتے تھے۔
نایاب علی نے کے بقول: ’انہوں نے قربانی کا جانور خواجہ سرا قرآن سکول کے پاس خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کے لیے جمع شدہ ایک چھوٹے سے فنڈ سے خریدا۔
’ہم نے ایک بیل ذبح کیا، جس کے ہم نے قصائی کو 20 ہزار ادا کیے۔‘
نایاب علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’اس سے قبل خواجہ سرا لوگوں کا انتظار کرتے تھے کہ وہ ان کے لیے گوشت بھیجیں گے، لیکن اکثر اس انتظار میں ان کے چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے تھے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’پچھلی عید پر خاص طور پر اسلام آباد میں ہماری کمیونٹی میں کسی کو بھی قربانی کا گوشت نہیں ملا۔ تب ہی ہم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ہم اپنی قربانی کیا کریں گے۔‘
نایاب علی نے بتایا کہ اتوار کو جب وہ اپنی کمیونٹی میں گوشت تقسیم کرنے کے لیے نکلیں تو کئی خواجہ سراؤں کے فرط جذبات سے آنسو نکل آئے۔
’میں رات گئے اپنی سکوٹی پر بیٹھ کر خود گوشت تقسیم کررہی تھی۔ کئی خواجہ سراؤں نے کہا کہ انہوں نے سرے سے کھانے پکائے ہی نہیں، کیونکہ بازار بند تھے اور گوشت ان کو کسی نے دیا نہیں۔‘
نایاب نے کہا کہ پچھلے دو تین سالوں سے اور خاص طور پر پچھلی بڑی عید پرخواجہ سراؤں کو کوئی بھی قربانی کا گوشت دینے نہیں آرہا تھا، جس سے ان کے اندر احساس محرومی، تنہائی، اور معاشرے سے رد کیے جانے کا احساس مزید گہرا ہوتا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کہیں یہ کرونا وبا کا نتیجہ تو نہیں، تو انہوں نے فوراً تردید کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی عید تک ویکسینیشن ہوگئی تھی، اور لوگ غربا، مساکین، اور دوست واحباب میں گوشت تقسیم کررہے تھے۔
اسلام آباد میں رہنے والی ایک خواجہ سرا پارو نے اتوار کو ’خواجہ سرا قرآن سکول‘ کی جانب سےعید کے موقع پر یاد کیے جانے کو کافی سراہا۔ انہوں نے بتایا جب نایاب علی ان کے دروازے پر پہنچیں، تو وہ حیران رہ گئیں۔
پارو کے مطابق، انہیں اندازہ نہیں تھا کہ آیا خواجہ سرا بھی قربانی کرسکتے ہیں، تاہم انہوں نے کہا: ’یہ بھی ایک سچ ہے کہ خواجہ سراؤں کی اکثریت کے پاس اتنے پیسے ہوتے بھی نہیں کہ وہ قربانی کرسکیں۔‘