سوشل میڈیا پر گذشتہ کئی دن سے ایک بینر گردش کر رہا ہے جس میں عبدالرحمٰن بابا کے مزار پر خواتین کے داخلے پر پابندی کا اعلان موجود ہیں۔
پشاور میں واقع پشتو کے صوفی شاعر کے مزار پر خواتین کے داخلے کو ممنوع قرار دینے پر بعض لوگوں نے تنقید کی تو کچھ نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔
بینر پر لکھا گیا ہے ’یہاں پر مستورات کا داخلہ ممنوع ہے۔ بحکم ایس ایچ او یکہ توت۔‘
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اعلان مزار کے داخلی دروازے پر پولیس کی جانب سے لگایا گیا ہے تاہم پولیس اس سے انکار کر رہی ہے۔
پشاور پولیس کے ترجمان محمد الیاس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور پولیس صنفی مساوات کے لیے سرگرم ہے اور سوشل میڈیا پر بینر کی تصویر سامنے آتے ہی اس کو اتار دیا گیا ہے نیز یہ بینر مقامی افراد اور مزار انتظامیہ نے لگایا تھا۔
الیاس نے بتایا کہ جس طرح ’یہاں گاڑی کرنا منع ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو پولیس کے حوالے کیا جائے گا‘ جیسے بینرز کا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسی طرح یہ بینر بھی مقامی انتظامیہ نے لگایا تھا اور پولیس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
عبدالرحمٰن بابا کے مزار پر روزانہ کی بنیاد پر مردوخواتین کی حاضری رہتی ہے اور یہاں ماضی میں کسی قسم کی پابندی کبھی نہیں لگائی گئی۔
رحمٰن بابا کے مزار کو 2009میں شدت پسندوں کی جانب سے دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا جسے بعد میں صوبائی حکومت نے باقاعدہ طور پر تعمیر کروایا ہے۔ رحمٰن بابا کا شمار پشتو کے صوفی شعرا میں ہوتا ہے اور ان کے کلام آج بھی لوگ شوق سے سنتے ہیں۔
خواتین پر مبینہ پابندی کیوں؟
کامران علی پشاور کے مقامی صحافی ہیں اور مذکورہ بینر لگنے کے بعد وہ فوری طور پر مزار پہنچے تھے۔ کامران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انھوں نے گیٹ پر موجود چوکیدار سے پوچھا کہ یہ پابندی کیوں لگائی گئی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں پر خواتین ٹک ٹاک ویڈیوز بناتی ہیں جس سے مزار کی بے حرمتی ہوتی ہے۔‘
کامران نے جن کی رہائش اسی مزار کے قریب واقع ہے بتایا ’میں نے ان سے پوچھا کہ مرد بھی تو ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہیں تو ان پر پابندی کیوں نہیں ہے؟ اس کے جواب میں چوکیدار کا کہنا تھا کہ وہ کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن زیادہ مسئلہ خواتین کا ہوتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ مزار کے داخلی دروازے پر موجود انتظامیہ کے ایک اہلکار کا بھی یہی موقف تھا۔
آغا میر جان پولیس سٹیشن (یکہ توت پولیس سٹیشن) کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا بینر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ بینر کو پولیس کی جانب سے لگایا گیا ہے۔
اسی مزار کے لنگر خانے میں چند لوگ نشہ کرتے بھی پائے جاتے ہیں جبکہ روزانہ کی بنیاد پر یہاں لنگر بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ مزار میں باقاعدگی سے عرس کی محفلیں بھی منعقد کی جاتی ہیں جن میں لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔
ٹوئٹر پر جب یہ بینر شئیر کیا گیا تو اس پر صارفین کی جانب سے مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔
فرزانہ علی پشاور میں آج ٹی وی کی بیورو چیف ہیں، انھوں نے ٹویٹر پر طنزیہ انداز میں لکھا ’مسئلہ تو ہمیشہ خواتین سے ہی ہوتا ہے میرے بھائی۔ آپ کو نہیں پتہ کیا؟‘
صحافی کامران علی کی جانب سے پوسٹ کی گئی بینر کی تصویر اور اس کے ساتھ لکھے کیپشن کہ یہ پابندی صرف خواتین پر کیوں لگائی گئی ہے، کے جواب میں مظہر خان نامی صارف نے لکھا کہ ’پشتون روایات کے مطابق اگر کسی مقدس مقام پر مستورات کی ٹک ٹاک ویڈیوز بنانا جائز ہے تو پھر آپ ٹھیک کہ رہے ہیں۔‘
کیا مزار پر خواتین کی پابندی غیرقانونی ہے ؟
مہوش محب کاکا خیل پشاور ہائی کورٹ کی وکیل ہیں اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے مختلف مقدمات کی پیروی کرتی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانون اس حوالے سے بالکل واضح ہے اور کسی بھی عوامی جگہ مقام پر جانے کے لیے کسی پر پابندی لگانا آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی ہے۔
مہوش نے بتایا ’یہ آرٹیکل جنس، مذہب، نسل، زبان کی بنیاد پر تفریق اور کسی عوامی مقام پر پابندی کے حوالے سے ہے جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح مہوش کے مطابق آئین کا آرٹیکل 15 بھی اس حوالے سے ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت پاکستان کا کوئی بھی شہری جہاں چاہے جا سکتا ہے۔
مہوش نے بتایا ’مزار میں خواتین کی داخلے پر پابندی آئین کے آرٹیکل 25 کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس قانون کے تحت قانون کے نظر میں سب برابر ہوں گے۔ اگر خواتین پر ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کی وجہ سے پابندی لگائی گئی ہے تو مردوں پر کیوں نہیں لگائی گئی؟‘
مہوش نے بتایا کہ ’پابندی کسی مسئلےکا حل نہیں بلکہ قانون کے مطابق مزار انتظامیہ اگر سمجھتی ہے کہ مزار کی بے حرمتی ہوتی ہے، تو اس کے لیے پابندی کے بجائے ایک ضابطہ اخلاق بنایا جائے جیسا کہ ویڈیوز کہاں پر بنانے کی اجازت ہوگی اور کہاں پر نہیں ہوگی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ یہ ضابطہ اخلاق صرف خواتین نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے ہونا چاہیے تاکہ مزار بھی محفوظ رہے اور لوگوں کے آنے پر پابندی بھی نہ لگ جائے۔
اس سارے معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے مزار انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کسی سے رابطہ نہ ہو سکا۔
انتظامیہ کے موبائل نمبر پر متعدد بار رابطے کی بھی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔
تاہم مزار کے قریب رہنے والے کامران علی نے بتایا کہ ابھی کچھ وقت پہلے انھوں نے چیک کیا تو داخلی دروازے سے خواتین کو جانے دیا جا رہا تھا۔