فہد اور انعم کی حج کہانی: ’ہمارا رشتہ یہاں آ کر مزید مضبوط ہو گیا‘

ایک نوجوان پاکستانی جوڑے کی کہانی، جن کا کہنا ہے کہ اس عمر میں اکٹھے حج کرنا ان کی زندگی کا سب سے بہترین تجربہ تھا۔

فہد اور انعم کی دو بیٹیاں ہیں، جنہوں نے اس سال حج بیت اللہ کا موقع ملا (فوٹو: فہد اور انعم)

کہتے ہیں جسے حج کی سعادت نصیب ہو جائے وہ بہت خوش قسمت انسان ہوتا ہے۔ واہ کینٹ سے تعلق رکھنے والے فہد اور انعم کا شمار بھی ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنہیں کرونا وبا کے باعث دو سال کے تعطل کے بعد حج بیت اللہ کا موقع ملا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس جوڑے کے پاکستان سے شروع اور مکہ میں اختتام پذیر ہونے والے اس سفر کو اپنے صارفین کے لیے فلم بند کیا ہے۔

انعم اور فہد نے جس رات مکہ کے لیے روانہ ہوتا تھا، اس دن انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حج کے لیے پہلے سے ان کا کوئی خاص منصوبہ تھا ہی نہیں۔ انعم کے مطابق: ’حج کا تو بالکل بھی کوئی پلان نہیں تھا۔ کافی وقت سے عمرے کی کوشش کر رہے تھے لیکن نہیں کر پا رہے تھے۔‘

حج کی درخواست اور قرعہ اندازی

اس سال پاکستان سے تقریباً 81 ہزار کے قریب حجاج نے یہ مذہبی فریضہ انجام دیا ہے۔ تاہم حج پر جانے والے افراد اور حج کی درخواست جمع کروانے والے افراد کی تعداد میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے، اسی وجہ سے سرکاری حج سکیم میں قرعہ اندازی کے ذریعے عازمین کو چنا جاتا ہے۔

حج درخواست جمع کروانا اور پھر اس بات کا انتظار کے قرعہ نکلے گا بھی یا نہیں، ایک بہت ہی بے چینی اور صبر آزما قسم کا وقت ہوتا ہے۔

انعم نے بتایا کہ جس دن انہوں نے درخواست جمع کروائی، وہ درخواست جمع کروانے کا آخری دن تھا اور بینک بند ہونے کے وقت سے دو تین گھنٹے پہلے ہی انہوں نے درخواست جمع کروائی۔

بقول انعم جس دن قرعہ اندازی ہونا تھی، اس سے ایک رات پہلے وہ سو نہیں پا رہی تھیں اور اللہ سے یہی دعا کر رہی تھیں کہ اللہ انہیں اپنے مہمان بنا لے۔

فہد نے جب حج درخواست منظور ہونے کی خبر سنی تو انہیں شروع میں یہ یقین ہی نہیں آیا کہ ان کا نام قرعہ اندازی میں نکل آیا ہے۔ ’مجھے جب انعم نے (قرعہ اندازی کا) سکرین شاٹ بھیجا تو میں اسے دیکھ رہا تھا اور میرے آنسو جاری تھے۔  میں پانچ، سات منٹ اسے دیکھتا رہا کہ کیا واقعی میرا نام نکل آیا ہے۔‘

’بچوں کو اللہ کے آسرے دادی کے پاس چھوڑ کر جا رہے ہیں‘

حج ایک مشقت والا عمل ہے۔ اسی لیے اس فریضے کی ادائیگی کے دوران آپ کو بہت کم بچے نظر آئیں گے۔ فہد اور انعم کے بچے تو ویسے ہی ابھی بہت چھوٹے ہیں اس لیے وہ انہیں ساتھ نہیں لے کر جا رہے تھے اور دونوں کو اسی بات کی پریشانی تھی۔

فہد کو جہاں قرعہ اندازی میں نام نکلنے کی خوشی تھی، وہیں وہ بچوں کے حوالے سے اسی پریشانی کا شکار تھے۔ انہوں نے بتایا: ’گھر آ کر خیال آیا کہ بچوں کا کیا کرنا ہے مگر اللہ کے آسرے انہیں اپنی والدہ کے پاس چھوڑ کر جا رہا ہوں۔‘

انعم کے بھی ایسے ہی جذبات تھے جنہیں بتاتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ روانگی سے قبل انہوں نے بتایا: ’جیسے جیسے جانے کا وقت قریب آ رہا ہے تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ جاتے ہوئے میرے قدم کیسے اٹھیں گے۔ ان لوگوں (بچوں) کو دیکھ کر گھر سے کیسے نکلوں گی؟ روز رات کو بڑی بیٹی کو میں خود سلاتی ہوں اور اب وہ کہتی ہے کہ بابا چلے جائیں گے، اللہ گھر چلے جائیں گے، میرے لیے اللہ لے کر آئیں گے۔ اللہ کے گھر جا رہے ہیں، اللہ انہیں صبر دے گا۔‘

جب پہلی بار خانہ کعبہ کو دیکھا!

فہد نے جانے سے پہلے ہمیں بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ جب وہ خانہ کعبہ پہنچیں گے تو وہاں ان کا امتحان ہو گا، ان کا ماضی ان کے سامنے رکھا جائے گا اور عدالت لگے گی۔

جب فہد اور انعم خانہ کعبہ پہنچے تو دونوں کے مطابق وہ خانہ کعبہ کو پہلی بار دیکھنے کے احساس کو الفاظ میں صحیح طریقے سے بیان نہیں کر پا رہے تھے۔

انعم کا کہنا تھا: ’دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ ابھی کعبہ سامنے آ جائے گا تو کیا ہوگا؟ ہم ہاتھ پکڑ کر ایک ساتھ آگے بڑھے، دو چار قدم ہی چلے ہوں گے کہ ہمارے چہرے کے سامنے کعبہ تھا۔ کعبہ دیکھتے ہی میں سکتے میں تھی۔ نہیں پتہ تھا کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔‘

انعم کو ان کے بہت سے رشتہ داروں نے انہیں کعبہ دیکھتے ہی ان کے لیے دعا کرنے کا کہا تھا مگر کعبہ دیکھتے ہی وہ تمام دعائیں بھول گئی تھیں۔ ’کعبہ دیکھا تو کچھ سمجھ نہیں آیا، بس آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ جسم پورا کانپ رہا تھا۔ جب بہت دیر بعد زبان سے لفظ نکلا تو وہ ’اللہ اللہ‘ تھا۔ بعد دیر بعد جا کر یاد آیا کہ دعائیں کرنی ہیں۔‘

’مجھے لگا کہ میں کھو گئی ہوں‘

حج کے دوران عازمین کو شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے عبادت اور میلوں پر محیط سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عازمین کی کثیر تعداد کے باعث رش بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس سال تقریباً 10 لاکھ کے قریب عازمین نے حج ادا کیا جب کہ عموماً ہر سال یہ فریضہ 25 لاکھ کے قریب افراد ادا کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عازمین عموماً گروہوں کی شکل میں مناسک حج ادا کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا کوئی ساتھی گم نہ ہو جائے۔ ایسی ہی صورت حال انعم کے ساتھ بھی پیش آئی جب انہیں لگا کہ وہ کھو گئی ہیں۔ ’لوگوں نے بہت ڈرایا تھا کہ بہت رش ہوتا ہے، گم جاتے ہیں۔‘

بقول انعم: ’مزدلفہ میں جب ہم نے رات گزاری تو فجر کے وقت وضو کرنے کے لیے گئی۔ نیند میں بھی تھی اور ساتھ طبیعت بھی خراب تھی تو ایک راستے سے وضو کے لیے گئی مگر واپسی پر دوسرے راستے سے آ گئی۔ جو نشانیاں میں نے رکھی تھیں وہ مجھ سے دور ہو گئیں۔ 10، 15 منٹ کھڑی ہو کر گول گول گھومتی رہی۔ ادھر سے ادھر۔ میرے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں تھا کیونکہ میں سارا سامان (فون وغیرہ) فہد کے پاس چھوڑ کر گئی تھی۔ وہیں کھڑے کھڑے میں نے درود شریف پڑھا اور اللہ سے دعا کی تو پھر راستہ سمجھ آ گیا اور اپنی جگہ واپس چلی گئی۔‘

’یہاں آ کر ہمارا رشتہ مزید مضبوط ہو گیا‘

فہد کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان سے ایک فرض کو لے کے چلے تھے۔ ’اس عمر میں ہم نے حج اکٹھے کیا ہے اور یہ ہماری زندگی کا سب سے اچھا تجربہ ہے۔‘

انعم کے مطابق: ’یہاں آ کر ہمارا رشتہ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ مجھے پاکستان میں لوگوں نے بہت ڈرایا تھا کہ یہاں میاں بیوی کی بہت لڑائیاں ہوتی ہیں، تو مجھے بہت ڈر تھا۔ شروع شروع میں تو ان سے زیادہ بات چیت بھی نہیں کر رہی تھی کہ کوئی ایسی بات نہ ہو، جس سے لڑائی ہو جائے لیکن الحمدللہ ہماری کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان