کیا پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت کم کرنا سیاسی چال ہے؟

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر شبر زیدی کے مطابق عموماً عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے تقریباً دو ماہ بعد عوام کو ریلیف دیا جاتا ہے لیکن حکومت کا عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہونےکےچند دن بعد ہی ریلیف منتقل کرنا تکنیکی اعتبار سےغلط فیصلہ ہے۔

 16 جولائی 2021 کو کراچی میں ایک پیٹرول پمپ پر ایک شخص کی موٹرسائیکل میں پیٹرول ڈالا جارہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایک فلم میں راجیش کھنا منتری کا کردار ادا کر رہے تھے۔ نان بائیوں کا ایک وفد راجیش کھنہ کے پاس آیا اور عرض کی کہ وہ روٹی کی قیمت تین روپے بڑھانا چاہتے ہیں۔

راجیش کھنہ نے کہا، ’تم قیمت پانچ روپے بڑھا دو۔‘

سیکریٹری نے کہا، ’منتری جی، عوام ہمیں جوتیاں ماریں گے۔‘

اس پر راجیش کھنہ نے جواب دیا، فکر نہ کرو، چند دنوں میں روٹی کی قیمت دو روپے کم کر دیں گے۔‘

فلم کے اس سین کو حکومت پاکستان کے پیٹرول کی قیمتیں 100 روپے سے بڑھانا اور الیکشن سے دو روز پہلے اسے 18 روپے کم کرنے کے فیصلے سے جوڑ کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی کوئی تُک نہیں بنتی، سوائے سیاسی چال کے۔ اس کے علاوہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا جو سیلاب آیا تھا اس میں کمی آنے کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں۔

اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر شبر زیدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’عمومی طور پر عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے تقریباً دو ماہ بعد عوام کو ریلیف دیا جاتا ہے کیونکہ آج کے دن میں خریدے گئے تیل کی ادائیگی تقریباً دو ماہ بعد کی جاتی ہے۔ حکومت کا عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے چند دن بعد ہی عوام کو ریلیف منتقل کرنا تکنیکی اعتبار سے غلط فیصلہ ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’عالمی مارکیٹ میں تیزی سے اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ بھی رہی ہیں اور کم بھی ہو رہی ہیں، لہٰذا قیمتیں کم کرنے کا فیصلہ اتنا جلدی کرنا مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ حکومت کو الیکشن کے بعد تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا پڑے۔

’اگر سرکار نے عالمی مارکیٹ کی قیمتوں میں کمی کو بنیاد پر بنا کر تیل کی قیمتوں میں کمی کی ہوتی تو یہ 18 روپے فی لیٹر سے کہیں زیادہ ہوتی۔ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 139 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر تقریباً 99 ڈالر فی بیرل تک آئی ہیں، جس کے مطابق ریلیف کی رقم کہیں زیادہ ہونی چاہیے تھی۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ حکومت کی دلچسپی عوام کو ریلیف دینے کی بجائے سیاسی پوائنٹس سکورنگ کی طرف زیادہ ہے۔‘

ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عوام کو ریلیف ضرور ملنا چاہیے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تیل کی قیمتیں کم ہونے سے عوام کی معاشی صورت حال پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں جو اضافہ ہوا تھا وہ واپس نہیں آ سکتا۔ بسوں کے کرائے کم نہیں ہوں گے۔ آٹا، دال، چاول اور گھی کی قیمتیں کم ہونے کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔ ماضی کے تجربات کے مطابق قیمتیں کم ہونے کی امید کرنا عبث ہے، کیونکہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں تقریباً غیر فعال ہیں۔

’بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کسی نہ کسی بہانے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ گیس کی قیمتیں 235 فیصد تک بڑھا دی گئی ہیں اور ابھی بجلی کی قیمتیں مزید بڑھائے جانے کی تیاری ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کی جانب سے بجٹ سرپلس کا ہدف 0.2 سے بڑھا کر 0.4 کر دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ نئے ٹیکس لگائے جائیں گے اور عوام کو دیے گئے ریلیف واپس لیے جائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر عوامی سطح پر خوشی زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکے گی۔ آئی ایم ایف نے غالباً اگست کے تیسرے ہفتے میں اجلاس بلایا ہے جس میں پاکستانی قرضے کی حتمی منظوری ملنے کی امید ہے۔ اس سے پہلے دو مرتبہ تیل کی قیمتیں مزید بڑھائے جانے کی اطلاعات ہیں، لہٰذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ الیکشن سے دو دن پہلے تیل کی قیمت کم کرنے کا فیصلہ شک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تیل کی قیمتیں کم کرنے کو آئی ایم ایف اور ڈالر کے ساتھ جوڑ کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کو اعتماد میں لے کر تیل کی قیمتیں کم کی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ درست ہو لیکن مارکیٹ کی صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔

’حکومت کے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے اعلان کے بعد ڈالر کی قیمت بڑھنا شروع ہو گئی ہے، جبکہ مفتاح اسماعیل بتا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول پر معاہدہ ہو گیا ہے۔ اس سے بازار میں بہتری آنی چاہیے تھی لیکن ڈالر کا بڑھنا اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ شاید آئی ایم ایف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے پر خوش نہیں ہے۔

’سرکار نے وقت سے پہلے قیمتیں کم کر دی ہیں جس کا بوجھ خزانے پر پڑ سکتا ہے۔ جہاں تک تیل کی قیمتیں کم کرنے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا معاملہ ہے تو یہ بات کافی حد تک درست دکھائی دیتی ہے، لیکن بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتیں عوامی مفاد کی بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر زیادہ توجہ دیتی رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے جب حکومت ہاتھ سے جاتی دیکھی تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر دی جس سے مسائل بڑھے اور اب موجودہ حکومت بھی الیکشن سے پہلے قیمتیں کم کر کے سیاسی پوائنٹس حاصل کر رہی ہے۔ ملک کی صورت حال نازک ہے اور ان حالات میں سیاسی چوکے چھکے مارنے کی بجائے ملکی مفاد میں فیصلے کرنا زیادہ ضروری ہے۔‘

اس حوالے سے درآمدات، برآمدات اور مقامی سطح پر مینوفکچرنگ کے کاروبار سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت شیخ بلال اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد بجلی، گیس اور خام مال کی قیمتوں میں کمی آنی چاہیے۔ بظاہر اس فیصلے کا فائدہ صرف حکومت کو ہوتا دکھائی سے رہا ہے۔

’دوسری طرف ہم مہنگا مال خرید کر پرڈاکٹس تیار کر چکے ہیں، جبکہ کسٹمرز مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ تیل کی قیمت کم ہونے پر پراڈکٹس کی قیمت بھی کم کی جائے، جو کہ ممکن نہیں ہے۔ سرکار اپنے سیاسی فائدے کے لیے کاروباری طبقے کو نظر انداز کر رہی ہے جو نامناسب ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ تیل کی قیمتوں میں کمی یا اضافے کی رفتار کم کرے۔ سو روپے قیمت بڑھانا اور پھر 18 روپے کم کر دینا کاروباری حساب کتاب کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔‘

بقول بلال اسلم: ’میں تو حکومت کی کارکردگی میں بہتری کے دعوے کو اس وقت مانوں گا جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے میرے اخراجات بھی کم ہوں اور کاروبار ترقی کرے۔ اگر میرے کاروبار کو فائدہ نہیں پہنچتا تو معاشی ترقی اور عوام کی معاشی صورت حال بہتر کرنے کے حکومتی دعوے کھوکھلے ہیں اور پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت کم کرنا عوامی مفاد نہیں بلکہ سیاسی چال ہے۔‘

ماہرین اور عوامی رائے کے پیش نظر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تیل کی قیمتیں کم کرنے کے فیصلے سے ملک کو معاشی سطح پر فائدہ ہونے کے امکانات کم ہیں اور عوام کو بھی اس کا بھرپور ادراک ہے۔

تحریک انصاف کا اس موقعے پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر اعتراض اٹھانا جائز ہے، کیونکہ یہ جمہوری الیکشن کی روح کے منافی ہے، بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے اقدامات کو الیکشن میں دھاندلی قرار دیا جاتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ