ایرانی سربراہی میں روس ترکی سہ فریقی مذاکرات

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی منگل کو روسی اور ترک ہم منصبوں کی ایک ایسی سہ فریقی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کر رہے ہیں جس میں ’شام کی جنگ زیر بحث آئے گی۔‘

ایرانی ایوان صدر کی طرف سے فراہم کردہ تصویر میں 19 جولائی 2022 کو تہران میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ترک صدر رجب طیب اردگان سے ہاتھ ملاتے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی منگل کو روسی اور ترک ہم منصبوں کی ایک ایسی سہ فریقی سربراہ کانفرنس میں میزبانی کر رہے ہیں جس کی اہمیت کو روس کے یوکرین پر حملے کے نتائج نے کم کر دیا۔

کانفرنس میں شام کی جنگ زیر بحث آئے گی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ سربراہ اجلاس ایران کے انتہائی قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی کی جانب سے گذشتہ سال عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار ان کی میزبانی میں ہو رہا ہے جب کہ یوکرین پر حملے کا حکم دینے کے بعد روس کے ولادی میر پوتن کا دوسرا غیر ملکی دورہ ہے۔
یہ اجلاس امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار مشرق وسطیٰ کے دورے کے چند روز بعد سامنے ہو رہا ہے۔ 

سہ فریقی سربراہی اجلاس بظاہر شام پر ہو رہا ہے۔ یہ اجلاس عرب ملک میں 11 سال سے زیادہ عرصے سے جاری لڑائی ختم کرانے کے لیے’دوستانہ امن عمل‘کا حصہ ہے۔

ایران، روس اور ترکی تینوں ملکوں کا شام میں عمل دخل ہے۔ ایران اور روس شامی صدر بشارالاسد جب کہ ترکی باغیوں کی معاونت کر رہا ہے۔

یہ اجلاس اس کے بعد ہو رہا ہے جب ترک صدر رجب طیب اردوغان نے گذشتہ سال کے آخر میں کرد عسکریت پسندوں کے خلاف شمالی شام میں نیا حملہ شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ شام میں کسی بھی ترک فوجی کارروائی سے خطے کو’عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

یہ سربراہ اجلاس اردوغان کو 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پوتن کے ساتھ پہلی ملاقات کا موقع فراہم کرے گا۔ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق اردوغان پیر کی رات تہران پہنچے اور منگل کی صبح رئیسی نے سعد آباد پیلس کمپلیکس میں ان کا استقبال کیا۔ بعد ازاں اروغان نے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کی جن کی بات اہم ریاستی پالیسیوں میں حتمی ہوتی ہے۔ توقع ہے کہ پوتن منگل کی رات تہران پہنچ جائیں گے۔

یوکرینی اناج

ترک صدر کئی ماہ سے روسی رہنما سے ملاقات کی پیشکش کر رہے ہیں تا کہ بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی کو ختم کرنے میں مدد مل سکے۔ روسی تجزیہ کار ولادی میر سوتنیکوف کے مطابق: ’اس سربراہ کانفرنس کا وقت اتفاق نہیں ہے۔ ترکی شام میں’خصوصی کارروائی‘ کرنا چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح روس یورکرین میں’خصوصی کارروائی‘کر رہا ہے۔

ترکی نے 2016 سے شام پر وقفے وقفے سے حملے شروع کررکھے ہیں جن میں کرد مسلح جتھے سمیت داعش کے جہادیوں اور صدر اسد کے وفاداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ کریملین کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پوتن اور اردوغان اپنی بات چیت میں یوکرین سے اناج برآمد کرنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کریں گے۔

یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی وجہ سے یوکرین سے گندم اور دوسرے اناج کی ترسیل میں بری طرح رکاوٹ آئی ہے۔ یوکرین اناج کے دنیا کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ اناج کی فراہمی میں رکاوٹ  سے عالمی سطح پر خوراک کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

نیٹو کے رکن ترکی نے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ بات چیت کے معاملے میں اناج کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کی قیادت کی ہے۔ کارنیگی یورپ کے ایک وزیٹنگ سکالر سینان الگن کا کہنا ہے کہ بالآخر اردوغان کو شام میں ترکی کے فوجی آپریشن کے لیے پوتن اور رئیسی سے’گرین سگنل‘حاصل کرنے کی امید ہو گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسپ بوریل نے پیر کو خبردار کیا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرینی بندرگاہوں کی ناکہ بندی سے فاقہ کشی کے خطرے سے دوچار لاکھوں افراد کو اناج کی سپلائی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ انہوں  نے اس معاملے کو’بہت سے انسانوں کی زندگی اور موت‘کا مسئلہ قرار دیا ہے۔

’ایران فوبیا‘ کا ایرانی الزام

بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم ہونے کے ایک دن بعد اتوار کو ایران نے امریکہ پر خطے میں بحرانوں کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔

بائیڈن نے ایران کے واضح حوالے سے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ’کسی بھی ملک کی جانب سے فوج کشی، دراندازی یا دھمکیوں کے ذریعے خطے میں کسی دوسرے ملک پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کرے گا۔‘

 سعودی شہر جدہ میں خلیجی عرب ریاستوں کے سمیت مصر، اردن اور عراق کے سربراہ اجلاس میں ایک تقریر میں بائیڈن نے رہنماؤں کو یقین دلایا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں مکمل طور پر سرگرم رہے گا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ’ہم ایسا خلا چھوڑ کر چلتے نہیں بنیں گے کہ اسے چین، روس یا ایران پُر کریں۔‘اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں رہنماؤں کے ساتھ’علاقائی سلامتی اور استحکام کے تحفظ‘ کا عہد کیا گیا۔

اعلامیے میں ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کے لیے سفارتی کوششوں پر بھی زور دیا گیا جن کے حصول کی ایران نے ہمیشہ تردید کی ہے۔

اتوار کو ایران نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اس نے’ایک بار پھر ایران فوبیا کی ناکام پالیسی کا سہارا لیا ہے اور خطے میں کشیدگی اور بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔‘

امریکہ نے گذشتہ ہفتے الزام لگایا تھا کہ ایران، یوکرین کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے روس کو’سینکڑوں ڈرونز‘فراہم کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایران نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا