گوگل: مصنوعی ذہانت کے نظام کو ’باشعور‘ کہنے والا انجینیئر برطرف

گوگل سے منسلک سافٹ ویئر انجینیئر بلیک لیموئن نے دعویٰ کیا تھا کہ کمپنی کا مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ LaMDA (لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز) دراصل ایک باشعور انسان کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔

26 اپریل 2022 کی اس تصویر میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں گوگل کے دفتر کے سامنے لگا ہوا بورڈ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عالمی ٹیک کمپنی گوگل نے کہا ہے کہ اس نے اپنے ایک سینیئر سافٹ ویئر انجینیئر کو ملازمت سے برطرف کردیا ہے، جس نے دعویٰ کیا تھا کہ کمپنی کا مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی چیٹ بوٹ LaMDA (لینگویج ماڈل فار ڈائیلاگ ایپلی کیشنز) دراصل ایک باشعور انسان کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گوگل نے گذشتہ ماہ سافٹ ویئر انجینیئر بلیک لیموئن کو یہ کہتے ہوئے جبری رخصت پر بھیجا تھا کہ انہوں نے کمپنی کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی اور یہ کہ ان کا LaMDA کے حوالے سے دعویٰ  ’مکمل طور پر بے بنیاد‘ ہے۔

گوگل کے ترجمان نے روئٹرز کو ایک ای میل کے ذریعے بتایا: ’یہ افسوس ناک ہے کہ اس شعبے میں طویل عرصے سے کام کرنے کے باوجود، بلیک نے واضح طور پر ملازمت اور ڈیٹا سکیورٹی پالیسیوں کی مسلسل خلاف ورزی کا انتخاب کیا جس میں کمپنی کی مصنوعات کی معلومات کی حفاظت بھی شامل ہے۔‘

گوگل نے گذشتہ سال کہا تھا کہ کمپنی کی تحقیق کے بعد بنایا گیا سافٹ ویئر LaMDA جس میں ٹرانسفارمر پر مبنی زبان کے ماڈل، جو بات چیت کے حوالے سے تربیت یافتہ ہیں، بنیادی طور پر کسی بھی چیز کے بارے میں بات کرنا سیکھ سکتے ہیں۔

گوگل اور بہت سے سرکردہ سائنس دانوں نے فوری طور پر بلیک لیموئن کے دعوے کو گمراہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا، جن کا کہنا ہے کہ LaMDA محض ایک پیچیدہ الگورتھم ہے، جسے قائل کرنے والی انسانی زبان کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

بلیک لیموئن کی برطرفی کی رپورٹ سب سے پہلے ’بگ ٹیکنالوجی‘ نے دی تھی۔

بلیک لیموئن نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ انہیں جمعے کو کمپنی کی جانب سے ویڈیو کانفرنس کی درخواست کے ساتھ برطرفی کا ای میل موصول ہوا۔

لیموئن کا کہنا ہے کہ وہ وکلا سے اپنے اختیارات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق لیموئن نے گوگل کے مصبوعی ذہانت کے شعبے میں طویل عرصے تک کام کیا اور اس دوران چیٹ بوٹس بنانے کے لیے کمپنی کے مصنوعی ذہانت کے نظام LaMDA سے بات کرنا شروع کی۔

انہیں یقین ہے کہ ’یہ ٹیکنالوجی دراصل ایک باشعور انسان کی طرح ہے، جو امتیازی یا نفرت انگیز زبان کا استعمال کر سکتا ہے۔‘

LaMDA کے ساتھ لیموئن کے انٹرویوز نے مصنوعی ذہانت میں حالیہ پیشرفت، اس نظام کے کام کرنے کے طریقے، اس کے بارے میں عوامی غلط فہمی اور کارپوریٹ ذمہ داریوں کے بارے میں ایک وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔

اس سے قبل گوگل کے پہلے ایتھیکل اے آئی ڈویژن کے سربراہان مارگریٹ مچل اور ٹمنیٹ گیبرو کی جانب سے اس ٹیکنالوجی سے وابستہ خطرات کے بارے میں خبردار کیے جانے کے بعد کمپنی نے انہیں نکال باہر کیا تھا۔

LaMDA گوگل کے جدید ترین وسیع لینگویج ماڈلز کا استعمال کرتا ہے جو ایک قسم کی مصنوعی ذہانت کے ذریعے متن کو پہچانتا اور اسے تخلیق کرتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ نظام زبان یا معنی کو نہیں سمجھ سکتے، لیکن وہ انسان جیسی زبان استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ انہیں انٹرنیٹ سے ملنے والے وسیع ڈیٹا کی مدد سے تربیت دی جاتی ہے تاکہ کسی جملے میں اگلے ممکنہ لفظ کی پیشگوئی کی جا سکے۔

جب LaMDA نے بلیک لیموئن سے ان کی شخصیت اور ان کے حقوق کے بارے میں بات کی تو انہوں نے اس کی مزید تفتیش شروع کی۔ اپریل میں انہوں نے کمپنی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک گوگل ڈاکیومنٹ کا اشتراک کیا جس کا عنوان Is LaMDA Sentient? تھا جس میں LAMDA کے ساتھ ان کی کچھ گفتگو شامل تھی۔

اس گفتگو کے بعد ہی انہوں نے اس کے باشعور انسان ہونے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم گوگل کے دو ایگزیکٹوز نے ان کے دعوؤں کو دیکھا اور انہیں مسترد کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی