چینی ملازمین کا دفتروں میں سونے کا رواج

چین میں غیر ملکیوں کو شروع میں دوپہر کو سونے کا رواج عجیب لگتا ہے لیکن بعد میں وہ بھی اسے اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔

نو جنوری، 2018 کی اس تصویر میں لوگ بیجنگ کے ایک دفتر میں آرام کر رہے ہیں (اے ایف پی)

کیا آپ نے کبھی کسی ملازم کو اپنے کام کی جگہ پر سوتے ہوئے دیکھا ہے؟ غالباً نہیں، اگر دیکھا بھی ہو گا تو عجیب سا لگا ہو گا۔

پاکستان میں سرکاری ملازمین کو بریک پر دیکھ کر عوام کا خون کھولنے لگتا ہے۔

سرکاری دفاتر کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے۔ سست سا۔ جو کام 10 سیکنڈ میں ہو سکتا ہے وہ وہاں 10 منٹ یا آدھے گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔

وہاں جانے کی اپنی ایک کوفت ہوتی ہے۔ جانے سے پہلے جان پہچان رکھنے والا بندہ تلاش کیا جاتا ہے تاکہ اس کی مدد سے وہاں ہونے والی ممکنہ خواری سے بچا جا سکے۔

اتنی محنت کے بعد جب لوگ سرکاری دفاتر میں پہنچتے ہیں تو وہاں بریک چل رہی ہوتی ہے۔

ہم چونکہ اسلامی جمہوریہ میں رہتے ہیں تو اس بریک کے ساتھ نماز کی بریک بھی شامل کر لیں جس کے دورانیے کے بارے میں نہ کچھ کہا جا سکتا ہے نہ شکایت کی جا سکتی ہے۔

اب فرض کریں آپ کسی سرکاری دفتر جائیں، وہاں بریک چل رہی ہو اور اس دوران وہاں کا عملہ اپنے اپنے ڈیسک پر سر جھکائے نیند پوری کر رہا ہو۔ آپ کا تو خون کھولنے لگے گا۔

آج کل سوشل میڈیا اپنے عروج پر ہے۔ آپ ان ملازمین کو اپنے کام کی جگہ پر سوتا ہوا دیکھ کر اپنا فون نکالیں گے اور ان کی تصویر لے کر ایک لمبی چوڑی پوسٹ کے ساتھ اپنے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں گے۔

آپ کا ایسا کرنا بنتا بھی ہے۔ پاکستان میں رہنا آسان کام نہیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا کام بھی کروانے کے لیے جوتے گھسانے پڑتے ہیں۔

تاہم ہمارے پڑوسی ملک چین میں ایسا منظر عام تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ اگر وہاں دوپہر میں کوئی سو نہ رہا ہو تو اسے عجیب سمجھا جاتا ہے۔

چین میں دوپہر کی بریک کا دورانیہ قریباً دو سے اڑھائی گھنٹے کا ہوتا ہے۔

اس بریک کے دوران لوگ کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے ہیں اور انہیں سوتا دیکھ کر کوئی برا بھی نہیں مانتا۔ اس کی ایک وجہ چین کا بہت زیادہ اور بہت تیزی سے ترقی کرنا ہے۔

جو کام ہمارے ہاں ہاتھ سے کیے جاتے ہیں وہ چین میں کب کے مشینوں اور انٹرنیٹ کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔

کچھ سال پہلے تک مجھے اپنے پاکستانی بینک میں پیسے جمع کروانے کے لیے ایک لمبی قطار میں لگنا پڑتا تھا۔

چین میں ایک بار پیسے جمع کروانے کی ضرورت پیش آئی تو میں بینک چلی گئی۔ ٹوکن لیا اور ایک طرف بیٹھ گئی۔

مینیجر نے میرے ہاتھ میں پیسے دیکھے تو میرے پاس آ گیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے بینک میں کیا کام ہے۔

میں نے اسے بتایا کہ میں اپنے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروانا چاہتی ہوں۔ اس نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔ وہ مجھے بینک کے اندر سے اے ٹی ایم سیکشن میں لے گیا۔

ایک مشین سے مجھے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرنے کا طریقہ بتایا اور کہا کہ اتنے سے کام کے لیے ٹوکن لے کر انتظار میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔

یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ چین میں چھوٹا بڑا ہر کام آن لائن ہو جاتا ہے۔ جہاں لوگوں کے خود جانے کی ضرورت ہو وہاں بھی انہیں بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ کرنا بھی پڑے تو ماحول اچھا ہوتا ہے۔

اے سی بھی چل رہا ہو گا۔ پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیے چیزیں بھی دستیاب ہوں گی۔ عملے کا رویہ بھی دوستانہ ہو گا۔

ایسے ماحول میں لوگ بہت خوشی سے اپنے کام کے ہونے کا انتظار کر لیتے ہیں۔

ہم واپس چینیوں کی دوپہر میں سونے کی عادت کی طرف آتے ہیں۔ چین میں دوپہر میں سونا ایک عام بات ہے۔

چینیوں کا خیال ہے کہ دوپہر میں تھوڑی دیر کی نیند انہیں باقی دن کے لیے تازہ دم کر دیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین میں دوپہر کا کھانا عموماً 11 سے 12 بجے کے دوران کھایا جاتا ہے۔ 12 سے دو سونے کا وقت ہوتا ہے۔

سکولوں میں بچوں کے لیے بستر موجود ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے اساتذہ بریک شروع ہوتے ہی ان کے بستر کمرہ جماعت میں ایک طرف لگا دیتے ہیں۔ بچے اپنے کپڑے تبدیل کر کے اپنے اپنے بستروں پر سونے کے لیے چلے جاتے ہیں۔

بریک ختم ہونے سے قبل ان کے اساتذہ انہیں اٹھاتے ہیں اور کپڑے تبدیل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کے بعد باقی کی پڑھائی کی جاتی ہے۔

دفاتر میں بھی یہی رواج ہے۔ 12 بجتے ہی لوگ اپنا کام روک دیتے ہیں۔ کھانے میں شاید 15 منٹ لگتے ہوں، پھر وہ اپنے اپنے ڈیسک پر ہی تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے ہیں۔

چینیوں کا کہنا ہے کہ 12 بجے سورج کی کرنیں گرم ترین ہوتی ہیں۔ لوگوں کے لیے بہترین ہے کہ وہ اس وقت اپنا کام روک کر تھوڑی دیر کے لیے اپنے جسم اور دماغ کو آرام پہنچائیں اور جب سورج تھوڑا ڈھل جائے، پھر دوبارہ اپنے کام کا آغاز کریں۔ اس سے ان کی صحت بہتر ہوگی۔

اس کے علاوہ چینیوں کا عقیدہ ہے کہ دوپہر کی نیند انسانی جسم میں موجود دو عناصر ینگ اور یانگ کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

چین آنے والے غیر ملکیوں کو شروع میں یہ رواج کافی عجیب لگتا ہے لیکن جب وہ اس سسٹم کا حصہ بنتے ہیں تو وہ بھی دوپہر میں سونا اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔

اگر کسی کی نیند سے کسی کا کام نہ رک رہا ہو تو سونے میں کیا برائی ہے۔ کیا خیال ہے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ