حالیہ شدید مون سون بارشوں کے بعد وادی سندھ کی تہذیب کے ساڑھے چار سے پانچ ہزار سال قدیم شہر موہن جو دڑو کی مٹی سے ایک قدیم مورتی نمودار ہوئی ہے۔
متعلقہ حکام نے اس مورتی کو آثار قدیمہ کے ماہرین کو بھیجا ہے، تاکہ اس کے متعلق مزید معلومات حاصل کی جائیں۔
حکام کے مطابق لاکٹ کے طور پر پہنے جانے والی اس مورتی کی لمبائی 42.93 ملی میٹر، چوڑائی 16.46 ملی میٹر اور وزن چھ گرام ہے۔
موہن جو ڈرو کے نگہبان نوید سانگاہ کے مطابق یہ مورتی درمیان سے ٹوٹی ہوئی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے نوید سانگاہ نے بتایا کہ ’حالیہ بارشوں کے بعد موہن جو دڑو ایئرپورٹ کی طرف ڈی کے ایریا میں سیاحوں کی رہنمائی کرنے والے گائیڈ کو یہ مورتی ملی۔‘
’یہ مورتی کاپر کی طرح کی ایک دھات کی بنی ہوئی ہے جس میں اوپر ایک چھوٹا سا سوراخ بھی موجود ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے لاکٹ کی طرح پہناجاتا ہوگا۔‘
واضح رہے کہ اس قدیم شہر کی دریافت کے بعد شہر کے مختلف حصوں کو مختلف نام دیے گئے تھے جیسے مرکزی بڑے سٹوپا والے حصے کو ستوپا اور دیگر حصوں کو گریٹ باتھ، ایس ڈی ایریا، ڈی کے ایریا، ایچ آر ایریا، منیر ایریا وغیرہ کے نام دیے گئے۔
سینیئر آرکیالوجسٹ علی حیدر گاڈھی کے مطابق موہن جو دڑو شہر کے کل رقبے میں سے تاحال صرف 10 فیصد حصے کی ہی کھدائی کی جاسکی ہے جبکہ 90 فیصد حصے کی کھدائی ابھی ہونا باقی ہے۔ یہ مورتی کھدائی نہ ہونے والے حصوں میں سے ایک جگہ ملی جسے ’ڈی کے ایریا‘ کہا جاتا ہے۔
علی حیدر گاڈھی کے مطابق ’ابھی تک موہن جو دڑو کے 90 فیصد حصے پر کھدائی نہیں ہوئی ہے اس لیے جب شدید بارشیں ہوتی ہیں تو کئی نوادرات نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مگر یہ لاکٹ نما مورتی منفرد ہے۔ یہ بظاہر تو بدھا کی مورتی لگ رہی ہے، مگر بدھا کی مورتی کے سر کے پیچھے ایک ہالہ نما پلیٹ بنی ہوئی ہوتی ہے، اس مورتی میں وہ پلیٹ موجود نہیں ہے، ہوسکتا ہے پلیٹ ٹوٹ گئی ہو مگر یہ ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔‘
اس مورتی کی دریافت کے بعد امریکہ میں مقیم صحافی، شاعر اور مترجم حسن مجتبیٰ نے اپنی فیس بک پوسٹ پر لکھا کہ یہ ’دھرتی ماں کا مجسمہ‘ ہے، جس کا انتظار صدیوں سے کیا جارہا تھا۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نوید سانگاہ نے کہا کہ ’یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہم نے یہ مورتی آثار قدیمہ کے ماہرین کو بھیجی ہے، وہ اس پر بہتر تبصرہ کرسکتے ہیں۔‘
نوید سانگاہ سے جب پوچھا گیا کہ یہ مورتی کیا ڈائی کی بنی (سانچے سے ڈھالی گئی) ہوئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مورتی ڈائی سے نہیں بنی، مگر کاپر کی ہونے کی وجہ بڑے عرصے تک زمین کے اندر رہنے کے باعث مڑ گئی۔ اس مورتی پر فنگس لگی ہوئی ہے جسے اتار کر اسے صاف کیا جائے گا۔
علی حیدر گاڈھی کے مطابق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈانسنگ گرل یا پروہت کے مجسمے کی طرح بہت سی چیزیں ابھی دریافت ہونا باقی ہیں۔
تاحال کی جانے والی 10 فیصد کھُدائی کے دوران ملنے والے سینکڑوں نوادرات میں سے پروہت راجہ یعنی کنگ پریسٹ، ڈانسنگ گرل یا رقاصہ اور ایک سینگ والے گھوڑے کے جسم جیسے جانور یونی کورن کے مجسمے والی مہریں انتہائی اہم سمجھی جاتی ہیں۔
کھدائی کی ایک صدی بعد بھی موہن جو دڑو شہر ایک معمہ
ماہرین کے مطابق اس شہر کو حقیقی معنوں میں ماہر آثار قدیمہ راکھل داس باندھو پادھیائے المعروف آر ڈی بینرجی نے دریافت کیا تھا، جنھوں نے 1920 میں یہ خیال پیش کیا کہ موہن جو دڑو کے مقام پر ممکنہ طور پر بدھا کا مجسمہ ہوسکتا ہے اور شروعاتی کھُدائی کے دوران انھیں چقماق پتھر کی کھرچنی اور کچھ دیگر چیزیں ملی تھیں۔
بعد میں 1922 میں برطانوی ماہر سر جان مارشل نے ان کی اس دریافت کی تصدیق کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس قدیم شہر کی کھُدائی کے ایک سو سال مکمل ہونے کے باجود اس قدیم شہر کے متعلق بہت سے راز تاحال نہیں کھل سکے۔ اس شہر کی زبان کے علاوہ ابھی تک حتمی طور پر یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ اتنے قدیم زمانے کا ’جدید ٹاؤن پلاننگ‘ سے بنا شہر تباہ کیسے ہوا۔
2020 میں سندھ حکومت کی جانب سے اس شہر کی زبان سمجھنے کے لیے مختلف ممالک کے ماہرین کو بلایا گیا تاکہ وہ اس قدیم شہر کے سکرپٹ کی گُتھی سلجھانے کی کوشش کریں، مگر پھر بھی زبان سمجھ نہیں آئی۔
کھُدائی کے دوران موہن جو دڑو سے سینکڑوں کی تعداد میں مہریں ملیں ہیں جن پر لکھی پُراسرار تحریر کو تاحال کوئی پڑھ نہیں پایا۔ ان مہروں پر جانور اور دیو مالائی شکلیں بنی ہیں۔
علی حیدر گاڈھی کے مطابق ’تاحال یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ موہن جو دڑو کے لوگوں کا مذہب کیا تھا۔ کھُدائی کے دوران کوئی قبرستان بھی نہیں ملا، جس سے پتہ چلے کہ موہن جو دڑو شہر کے لوگ اپنے پیاروں کو مرنے کے بعد دفناتے تھے، جلاتے تھے یا پانی میں بہاتے تھے۔‘
سرکاری طور پر تاریخی نام ’موہن جو دڑو‘ قرار
سر جان مارشل نے شہر کی تاریخ پر ’موہن جو دڑو اور انڈس سویلائزیشن‘ نامی کتاب میں اس شہر کا نام موہن جو دڑو ہی لکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں اس تہذیب پر ایک عالمی کانفرنس بلائی تھی جس کے دعوت نامے پر بھی موہن جو دڑو کا نام درج کیا گیا تھا۔
انگریزی میں بھی اسے ’موہن جو دڑو‘ ہی لکھا جاتا رہا ہے مگر اردو اور دیگر زبانوں میں موہن جو دڑو کے بجائے اس قدیمی شہر کو ’موئنجو دڑو‘ لکھا جاتا رہا، جو سندھی زبان کا لفظ ہے اور جس کے معنی ہیں ’مُردوں کا ٹیلہ۔‘
جنوری 2020 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی قاسم سراج سومرو نے اس قدیمی شہر کا تاریخی نام موہن جو دڑو سرکاری طور پر بحال کرنے کے حوالے سے قرارداد پیش کی جس کے بعد سرکاری طور پر شہر کا تاریخی نام ’موہن جو دڑو‘ بحال کردیا گیا۔