سائنسدان بلیک ہولز سے کائنات کی توسیع کی رفتار جان سکیں گے؟

شکاگو یونیورسٹی کے ماہرین فلکیات نے ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے جو ٹکرانے والے بلیک ہولز سے کام لیتا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ہماری کائنات کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

27 فروری 2017 کو شیفیلڈ یونیورسٹی کی جانب سے ایک فنکار کے فن پارے میں زمین سے ایک اعشاریہ سات ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول کی تصویر(اے ایف پی)

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ وہ ایک عجیب ذریعہ استعمال کرتے ہوئے اس بات کو جان سکیں گے کہ کائنات کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے، یہ ذریعہ بلیک ہولز ہیں۔

شکاگو یونیورسٹی کے ماہرین فلکیات نے ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے جو ٹکرانے والے بلیک ہولز سے کام لیتا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ہماری کائنات کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

کائنات پھیلنے کی شرح جسے ’ہبل کونسٹنٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، پر1929 سے بحث ہوتی رہی ہے، جب اسے ایڈون ہبل نے دریافت کیا تھا۔ سائنس دان تقریباً ایک صدی سے کائنات کے پھیلاؤ کی پیمائش اور اس کا حساب کر رہے ہیں لیکن مستقل طور پر ایک جیسے رہنے والی یہ کیفیت حقیقی دنیا کے مشاہدات سے میل نہیں کھاتی۔

کائنات کی بنیادی طبیعیات سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات کو زمین سے ایک میگا پارسیک (32 لاکھ نوری سال) دور کہکشاں کی پیمائش کرتے ہوئے 68 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پھیلنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ عمل اصل ستاروں کے مشاہدات سے میل نہیں کھاتا جو بظاہر کہیں تیز شرح سے حرکت کر رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی کائنات کے ایک اہم حصے کو نہیں سمجھتے۔

ان حالات میں سائنس دان کائنات کے پھیلاؤ کی شرح کی پیمائش کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس نئے ٹیسٹ میں ایک دوسرے میں ضم ہونے والے بلیک ہولز کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ عمل اتنا طاقتور ہے کہ یہ خلا کے وقت میں ایک لہر پیدا کرتا ہے جو پوری کائنات میں سفر کرتی ہے۔

یہ لہریں جو کشش ثقل کی لہروں کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں، کو زمین پر لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (ایل آئی جی او) یا ورگو کے مشاہداتی مرکز جیسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ناپا جاسکتا ہے۔

بلیک ہولز کے 100 سے زیادہ جوڑوں کے ٹکرانے کی پیمائش کا استعمال کرتے ہوئے سائنس دان دیکھ سکتے ہیں کہ لہریں سفر کے دوران کیسے بدلتی ہیں۔ شکاگو یونیورسٹی کے ماہر فلکیاتی طبیعیات ڈینیئل ہولز کہتے ہیں کہ ’اگر آپ بلیک ہول لے کر اسے کائنات میں پہلے رکھ دیں تو سگنل بدل جائے گا اور یہ حقیقت سے بڑا بلیک ہول نظر آئے گا۔‘

اس کے بعد یہ مشکل سامنے آتی ہے کہ اصل سگنل کی مدد سے کائنات کے پھیلاؤ کی شرح کا حساب کیسے لگایا جائے لیکن موجودہ شواہد بتاتے ہیں کہ زیادہ تر بلیک ہولز جن کا پتہ لگایا جا چکا ہے ان کا حجم ہمارے سورج سے پانچ سے 40 گنا زیادہ ہے۔

’لہٰذا ہم قریبی بلیک ہولز کے حجم کی پیمائش کرتے ہیں اور ان کی خصوصیات کو سمجھتے ہیں، اور پھر ہم مزید دور دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مقام کتنا تبدیل کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ناسا کی آئن سٹائن پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو اور کاولی انسٹی ٹیوٹ فار کوسمولو جیکل فزکس اور اس مسئلے پر کام کرنے والے ہوسے ماریا ازکوئیاگا کے بقول: ’اس طرح آپ کو کائنات کے پھیلاؤ کو ناپنے کا موقع ملتا ہے۔‘

مزید کام کر کے یہ طریقہ سائنس دانوں کو کائنات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے میں مدد کر سکتا ہے جب یہ صرف 10 ارب سال قدیم تھی۔ تب ایک ایسا وقت تھا جس کا دوسرے طریقوں سے مطالعہ کرنا مشکل ہے۔

ڈاکٹر ازکوئیاگا کہتے ہیں کہ ’یہ وہ وقت ہے جب ہم تاریک مادے کے کائنات میں غالب قوت ہونے سے غلبہ پانے والی تاریک توانائی کی طرف چلے گئے اور ہم اس اہم تبدیلی کا مطالعہ کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔‘

تحقیق کے مصنفین نے کہا کہ اس طریقہ کار کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے سائنسی علم میں خلا کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر یقینی حالات بہت کم رہتے ہیں۔

ڈاکٹر ہولز نے کہا کہ ’تمام بلیک ہولز سے کام لیتے ہوئے یہ طریقہ خود کو درست کر سکتا ہے۔ یہ براہ راست غلطیوں کی نشاندہی اور ان کو درست کر سکتا ہے۔‘

دوسرے طریقے ستاروں اور کہکشاؤں کی طبیعیات کے بارے میں ہماری موجودہ سوجھ بوجھ پر انحصار کرتے ہیں، لیکن اگر کائنات کے ایسے پہلو موجود ہیں جو ہم نہیں سمجھتے ہیں تو یہ پیمائش کے عمل کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ طریقہ تقریباً مکمل طور پر آئن سٹائن کے نظریہ کشش ثقل پر انحصار کرتا ہے جو زیادہ مستقل ہے۔

بلیک ہولز سے زیادہ ڈیٹا حاصل کر کے مستقبل میں زیادہ درست حساب کتاب لگایا جا سکے گا۔ ڈاکٹر ہولزکے مطابق: ’ہمیں ترجیحی طور پر ان ہزاروں سگنلز کی ضرورت ہے جو ہمارے پاس چند سالوں میں ہونے چاہئییں اور اگلی ایک یا دو دہائیوں میں اس سے بھی زیادہ۔‘

’اُس وقت یہ کائنات کے بارے میں جاننے کا ایک ناقابل یقین حد تک طاقتور طریقہ ہوگا۔‘

’سپکٹرل سائرنز: کوسمولوجی فرام دا فل ماس ڈسٹری بیوشن آف کمپکٹ بائنریز‘کے عنوان سے یہ تحقیق مقالے فریکل ریویو لیٹرز میں شائع ہوئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق