ایران اور امریکہ جوہری معاہدے کے قریب لیکن رکاوٹیں برقرار

تہران اور واشنگٹن دونوں کی جانب سے عوامی پیغام رسانی کی مہمات میں تیزی سمیت نئی پیش رفت سے پتہ چلتا ہے کہ جلد ایک معاہدہ ہو سکتا ہے۔

10 نومبر 2019 کو لی گئی اس تصویر میں ایران کے بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ کے باہر ملک کا قومی پرچم دکھایا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

امکان ہے کہ بائیڈن انتظامیہ رواں ہفتے ایران کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے کی تعمیل دوبارہ شروع کرنے کی تازہ ترین پیشکش پر کوئی بیان دے گی لیکن کوئی بھی فریق اس معاہدے کی بحالی کے لیے کوئی حتمی راستہ پیش نہیں کر رہا۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ان کی جانب سے بدھ کو یورپی مجوزہ مسودے پر ایران کے تبصروں کا جواب دینے کا امکان ہے، جس کے بعد تکنیکی تفصیلات پر مذاکرات ہوں گے اور پھر معاہدے کی نگرانی کرنے والے مشترکہ کمیشن کا اجلاس ہوگا۔

تہران اور واشنگٹن دونوں کی جانب سے عوامی پیغام رسانی کی مہمات میں تیزی سمیت نئی پیش رفت سے پتہ چلتا ہے کہ جلد ایک معاہدہ ہو سکتا ہے۔

تاہم معاہدے کی جانب پیش رفت کے باوجود بے شمار رکاوٹیں باقی ہیں اور اہم نکات اب بھی 2015 کے معاہدے کی بحالی میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنا جوہری پروگرام روکنے کے بدلے اربوں ڈالر کی پابندیوں میں چھوٹ ملی تھی، جس کا مقصد اسے جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنا تھا۔

حتیٰ کہ امریکہ میں معاہدے کے حامی بھی اب اس ’طویل اور مضبوط‘ معاہدے کا ذکر نہیں کر رہے  جو انہوں نے ابتدائی طور پر اس وقت طے کیا تھا جب گذشتہ موسم بہار میں ایران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات شروع ہوئے تھے۔

جبکہ ایران پر عائد امریکی پابندیوں میں زیادہ نرمی کے مطالبات، معاہدے کی بحالی کے لیے دباؤ کو کم کر سکتے ہیں۔

واشنگٹن میں بائیڈن انتظامیہ کو کانگریس میں ڈیموکریٹس اور رپبلکن دونوں کی جانب سے 2015 کے معاہدے کی بحالی پر کافی سیاسی مخالفت کا سامنا ہے، جو اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ یہ امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔

ٹیکسس کے رپبلکن  ٹیڈ کروز نے کہا: ’میں منظم انداز سے اس تباہ کن معاہدے کے نفاذ کے خلاف لڑنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کروں گا کہ اسے روکا جائے اور بالآخر جنوری 2025 میں اسے الٹ دیا جائے۔‘

ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی مشیر جان بولٹن کے قتل کی سازش کے الزام میں ایک ایرانی پر حالیہ فرد جرم اور مصنف سلمان رشدی پر بظاہر ایران کے ایک ہمدرد کی جانب سے حملے نے مزید شکوک و شبہات میں اضافہ کیا ہے۔

انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست  پر بتایا کہ تازہ ترین مسودے میں تہران کا یہ مطالبہ شامل نہیں ہے کہ امریکہ ایران کی پاسداران انقلاب فورس کو دہشت گردی کی فہرست سے نکال دے گا اور ایران اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گیا ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی تین غیر اعلانیہ مقامات پر یورینیئم کے غیر واضح نشانات کی تحقیقات بند کرے۔

تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ دہشت گردی کی نامزدگی کو منسوخ کرنا کبھی بھی حقیقت پسندانہ مطالبہ نہیں تھا۔ یہ نہ صرف جوہری معاہدے کے دائرے سے باہر ہے بلکہ جان بولٹن کے قتل کی سازش کے الزام، دیگر سابق امریکی حکام کو جاری کی گئی ایرانی دھمکیوں اور رشدی حملے کے بعد سے یہ عملاً ناممکن ہوگیا تھا۔

اگرچہ ایران نے آئی اے ای اے کی تحقیقات کو بند کیے بغیر بالآخر معاہدے پر واپس آنے کے طریقہ کار پر اتفاق کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس نے کہا ہے کہ کسی معاہدے کی اصل تعمیل ایجنسی سے کلین چٹ حاصل کرنے پر منحصر ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا: ’معاہدہ دو ہفتے پہلے کے مقابلے میں (تکمیل کے) زیادہ قریب ہے‘ لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ نتیجہ ابھی بھی غیر یقینی ہے کیونکہ ’کچھ خلا باقی ہے۔‘

ایرانی حکام نے منگل کو اس تجویز پر سخت تنقید کی کہ وہ اس معاہدے میں دوبارہ داخل ہونے کے مطالبات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

ویانا میں بالواسطہ مذاکرات کے ایرانی مشیر سید محمد مراندی نے منگل کو ٹوئٹر پر لکھا کہ پاسداران انقلاب کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنا کبھی بھی پیشگی شرط نہیں تھی اور انہوں نے اصرار کیا کہ ’آئی اے ای اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے جھوٹے الزامات کی فائل کو مستقل طور پر بند کرنے سے پہلے کسی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔‘

دریں اثنا مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اسرائیل کسی معاہدے کی جانب پیش رفت سے بظاہر بہت خوفزدہ ہے۔ اسرائیل کے متبادل وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے منگل کو بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے کو آگے بڑھانے کی مزاحمت کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نفتالی بینیٹ نے ایک بیان میں کہا: ’میں صدر بائیڈن اور امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس آخری لمحے میں بھی ایران کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے سے گریز کریں۔‘

انہوں نے کہا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی سلامتی کے پانچ مستقل ارکان یعنی امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین کے ساتھ ساتھ جرمنی کے دستخط کردہ 2015 کے معاہدے کا فریق نہیں ہے لیکن اسرائیل براہ راست متاثر ہوگا اور اپنے دفاع کے تمام حقوق محفوظ رکھے گا۔

بینیٹ نے کہا: ’اسرائیل معاہدے سے آنے والی کسی بھی پابندی کا پابند نہیں ہے اور وہ ایرانی جوہری پروگرام کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لائے گا۔‘

موجودہ اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپیڈ کی ہدایت پر اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر ایال ہولاٹا رواں ہفتے بائیڈن انتظامیہ کے حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے واشنگٹن میں موجود ہیں۔ منگل کو ان کی ملاقات وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے ساتھ ہوئی۔

قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا کہ جیک سلیوان نے ایال ہولاٹا کے ساتھ بات چیت کے دوران صدر بائیڈن کے ’اس عزم کو اجاگر کیا کہ ایران کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے۔‘

وائٹ ہاؤس کا اصرار ہے کہ زیر بحث شرائط میں 2015 کے معاہدے کے اہم نکات شامل ہیں۔ امریکہ 2018 میں اس معاہدے سے دستبردار ہونے پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دوبارہ عائد کی گئی سیکڑوں پابندیاں اٹھا لے گا اور ایران اپنے جوہری پروگرام کو اصل جوہری معاہدے کی مقرر کردہ حدود تک واپس لے جائے گا جس میں افزودگی پر حد، وہ کتنا مواد ذخیرہ کر سکتا ہے اور افزودگی کے لیے درکار جدید سینٹرفیوز کا آپریشن شامل ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کے انتہائی افزودہ یورینیئم کے موجودہ ذخیرے کا کیا ہوگا اور اس کے لیے ان جدید سینٹرفیوز کا کیا کرنا ہوگا، جو چل رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ دونوں کو ’ہٹا‘ دیا جائے گا لیکن انہوں نے تفصیلات بیان نہیں کیں۔

عوام کے سامنے لائے گئے گذشتہ اعدادوشمار کے مطابق ایران کے پاس تقریباً تین ہزار 800 کلوگرام (8370 پاؤنڈ) افزودہ یورینیئم کا ذخیرہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت تہران یورینیم کو 3.67 فیصد خالص تک افزودہ کر سکتا ہے جبکہ نگرانی کے کیمروں اور بین الاقوامی انسپکٹرز کی مسلسل جانچ پڑتال کے تحت 300 کلوگرام (660 پاؤنڈ) یورینیئم کا ذخیرہ برقرار رکھ سکتا ہے۔

پابندیوں سے نجات کے حوالے سے ایران کا مطالبہ رہا ہے کہ انتظامیہ یہ عہد کرے کہ مستقبل کا کوئی بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اٹھائی گئی پابندیوں کو دوبارہ عائد نہ کرے اور وعدہ کیا جائے کہ کانگریس ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لیے ابتدائی طور پر منظور کی گئی قانونی پابندیوں کی قانون سازی کو منسوخ کر دے گی۔ تاہم انتظامیہ ابھی ضمانت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا: ’یہ رپورٹس کہ ہم نے 2015 کے جوہری معاہدے میں دوبارہ داخل ہونے کے ایک حصے کے طور پر ایران کی نئی رعایتیں قبول کی ہیں یا ان پر غور کر رہے ہیں، صریحاً غلط ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا