لیگی رہنماؤں میں اختلافات: کارکردگی چھپانے کی کوشش؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی بیان بازی سے پارٹی کے اختلافات سنجیدہ نہیں سمجھے جاسکتے بلکہ تمام فیصلوں پر پوری قیادت ذمہ دار ہے۔

4  اکتوبر 2017 کی اس تصویر میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھائی سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف مسلم لیگ ن کے ورکرز کنونشن  کے موقع پر (تصویر: اے ایف پی فائل) 

پاکستان میں رواں برس وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد استحکام دکھائی نہیں دیتا جس کا ادراک خود حکومت کو بھی ہے۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی اور تحریک انصاف کی سیاست نے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے لیے دوہرا چیلنج پیدا کر رکھا ہے۔

اب تو مسلم لیگ ن کے اپنے رہنماؤں کی جانب سے بھی شہباز شریف کی حکومت کی کارکردگی پر سوالات شروع ہو گئے ہیں۔

خاص طور پر میاں جاوید لطیف وفاقی وزیر ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف کارروائی موثر بنانے جبکہ عابد شیر علی نے مہنگائی کے بے قابو ہونے کی میڈیا پر آکر شکایات کی ہیں۔

مریم نواز بھی متعدد بار حکومتی پالیسیوں پر عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے ٹویٹ کر چکی ہیں۔

اس کے علاوہ میڈیا پر چلنے والے نواز شریف اور اسحاق ڈار کے حکومتی فیصلوں پر تحفظات کی خبروں پر نواز شریف کو خود وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی بیان بازی سے پارٹی کے اختلافات سنجیدہ نہیں سمجھے جاسکتے بلکہ تمام فیصلوں پر پوری قیادت ذمہ دار ہے۔

بیان بازی کا مقصد حکومتی کارکردگی سے توجہ ہٹانے اور عوامی حمایت حاصل رکھنے کی کوششہے۔

اختلافات منظر عام پر لانے کا مقصد کیا ہے؟

سینیئر تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومتی کارکردگی آئے روز ایکسپوز ہورہی ہے، جو حالت انہوں نے عوام کی کر دی ہے اس سے لوگ متنفر ہوتے جارہے ہیں۔‘

حسن عسکری نے کہا کہ معاشی حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ اب سنبھالنا مشکل ہوچکا ہے بات صرف ن لیگ کی نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ملبہ دوسرے پر ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

’ن لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے جو اپنی ہی حکومت پر تنقید کی جارہی ہے وہ سیاسی گیم ہے کیوں کہ یہ سب اندر سے ایک ہی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول ’ن لیگ کی سیاست شروع سے ایسی ہے کہ اختلافات دکھا کر اپنے حامیوں کو ساتھ رکھا جائے اب اگرشہباز شریف ڈلیور نہیں کر سکے تو یہ ناکامی کسی اور پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے۔‘

حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ’ملک کا معاشی ڈھانچہ تبدیل کیے بغیر کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی جو بھی حکومت آئے گی اسے آمدن سے زائد اخراجات اور دیگر معاملات کو چلانا مشکل ہوگا اس لیے ایسی بیان بازی غیر اہم ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایسے حالات پیدا کر کے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسحاق ڈار یا نواز شریف کی واپسی کوئی خوشحالی آجائے گی تو یہ غلط سوچ ہے کیوں کہ وہ پہلے بھی حکومت میں رہ چکے ہیں اور لوگ انہیں بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بھی ذاتی مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دیتے آئے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار کے مطابق: ’شہباز شریف پہلے بھی وزیر اعلی رہے ہیں تو اب وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی پالیسیوں سے اختلاف سنجیدہ کیسے ہوسکتا ہے یہ مہنگائی میں پسے عوام کی ہمدردیاں اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘

موجودہ حالات میں نواز شریف کو وضاحت کیوں دینا پڑی؟

مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جتنے بھی ن لیگی رہنما وزیراعظم کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں وہ ہیں تو جائز کیوں کہ عوام جتنی سابقہ حکومت سے تنگ تھی موجودہ حکومت سے زیادہ تنگ آچکی ہے، نہ قابو آنے والا مہنگائی کا جن لوگوں کا جینا مشکل بنا چکا ہے۔

’لیکن یہ بیان بازی کرنے والے رہنما پارٹی میں فیصلہ کن کردار نہیں رکھتے ہوسکتا ہے کسی کے کہنے پر بیان بازی کی ہو۔‘

سلمان غنی کے بقول: ’میاں نواز شریف نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے شہباز حکومت پر اعتماد کا اظہار کر کے پارٹی رہنماؤں کے بیانات نہیں بلکہ میڈیا پر چلنے والی خبروں کی تردید کی ہے جن میں دعوی کیا جارہاتھا کہ نواز شریف حکومتی کارکردگی سے ناخوش ہیں اور فیصلہ سازی سے الگ ہوگئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسحاق ڈار واپس آکر معیشت سنبھالنا چاہتے ہیں جس کا وہ تجربہ بھی رکھتے ہیں مگر حکومت میں موجود بعض وزرا ان کا فیصلہ سازی میں غیر معمولی کردار برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

سلمان غنی نے بتایا کہ ن لیگ کی قیادت ضرور سوچ رہی ہے کہ پارٹی کی ساکھ بچانے کے لیے معاشی فیصلوں کے لیے اسحاق ڈارکو حکومت کا حصہ بنایا جائے۔

سلمان غنی نے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ نواز شریف کے نام پر ہی پارٹی کھڑی ہے اور عوام بھی ان حالات میں ان کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ انہیں مسائل سے نکالنے کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔

’ان حالات میں موجودہ حکومت کے حالات بھی وہی دکھائی دے رہے ہیں جو آخری دنوں میں عمران حکومت کے تھے جو ن لیگ تو کیا پی ڈی ایم کے لیے بھی اچھے اشارے نہیں ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست