کیا مرضی کے بغیر طلبہ کا ڈرگ ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے؟

پشاور میں منشیات کے خلاف مہم کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے بعد اب تعلیمی اداروں میں طلبہ کے بلا ترتیب ٹیسٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

23 اپریل 2022 کو لی گئی تصویر میں پشاور کی ایک لائبریری میں طلبہ۔ ضلعی انتظامیہ نے کالجز اور یونیوسٹیز کے طلبہ کے ڈرگ ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے (اے ایف پی فائل)

صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ضلعی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے ستمبر سے تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے طلبہ کا ’ڈوپ ٹیسٹ‘ یعنی منشیات کا ٹیسٹ کرایا جائے گا لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اسمبلی سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے اور زبردستی ٹیسٹ کرنا غیر قانونی ہوگا۔

پشاور میں گذشتہ تین ماہ سے جاری منشیات کے خلاف مہم کا پہلا مرحلہ رواں ہفتے اختتام پذیر ہوا ہے جس میں 12 سو سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کا تین مہینے کا علاج کیا گیا ہے۔

یہ مہم کمشنر پشاور اور ضلعی انتظامیہ پشاور سمیت کچھ سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے جاری رہی اور اب تعلیمی اداروں میں طلبہ کے بلاترتیب ٹیسٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

کمشنر پشاور ریاض احمد محسود کے مطابق عام تاثر یہ پیدا ہوگیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال پروان چڑھ رہا ہے اور زیادہ تر طلبہ نشے کی عادی بن چکے ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی سروے موجود نہیں ہے اس لیے انتظامیہ نے طلبہ کے ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے رواں ہفتے منشیات کے خاتمے کی مہم کی اختتامی تقریب کے دوران کہا: ’ڈوپ ٹیسٹ تمام سرکاری و نجی کالجز اور یونیورسٹیز میں رینڈم کیا جائے گا تاکہ ہمارے پاس سروے ہو سکے کہ کتنے طلبہ منشیات استعمال کرتے ہیں اور بعد میں اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔‘

تقریب میں کمشنر پشاور اور  ڈپٹی کمشنر دونوں نے کہا کہ وہ پہلے خود کو ڈوپ ٹیسٹ کے لیے پیش کریں گے اور پھر طلبہ کے ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

ڈوپ ٹیسٹ کیا ہوتا ہے؟

ڈوپ ٹیسٹ میں ایک شخص سے خون یا پشاب کے نمونے حاصل کرکے یہ پتہ چلایا جاتا ہے کہ اس نے منشیات یا غیر قانونی ادویات کا استعمال تو نہیں کیا ہے۔

آپ نے کرکٹ اور دیگر کھیلوں میں یہ نام سنا ہوگا۔ کھلاڑیوں کا یہ ٹیسٹ اس صورت میں کیا جاتا ہے جب انتظامیہ کو شک ہو کہ انہوں نے طاقت بخش غیر قانونی دوا کا استعمال کیا ہے۔ اکثر کھلاڑیوں نے اپنے کنٹریکٹ میں ان ٹیسٹس کی حامی بھی بھری ہوتی ہے۔

تاہم تعلیمی اداروں میں ایڈمیشن کے وقت ایسی کوئی شرط نہیں رکھی جاتی۔ قانونی ماہرین رینڈم یا بلاترتیب ٹیسٹنگ کو طلبہ کی پرائیوسی کی خلاف ورزی بھی قرار دیتے ہیں اور بلا اجازت ٹیسٹ کو غیر قانونی بھی۔ 

انڈپینڈنٹ اردو نے جاننے کی کوششش کی کہ کیا کسی بھی شخص کا ڈوپ ٹیسٹ اس کی اجازت کے بغیر کیا جا سکتا یا نہیں۔

علی گوہردرانی پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ انتہائی مکروہ عمل ہے کیوں کہ کوئی بھی ادارہ، حکومت یا شخص کسی کو بھی ڈوپ ٹیسٹ کرانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔

علی گوہر نے بتایا: ’آپ کسی کو بھی ڈوپ ٹیسٹ کے لیے مجبور نہیں کر سکتے لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ادارے کا ملازم ہے اور ادارے نے اس شخص کو ملازمت کے دوران پابند کیا ہے کہ وہ ادارہ کسی بھی وقت ان کا ڈوپ ٹیسٹ کرا سکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ عمل میڈیا تشہیر کے لیے اچھا تو ہو سکتا اور اخلاقی طور بھی ڈوپ ٹیسٹ اچھا عمل ہے لیکن اخلاق اور اور قانون دو الگ چیزیں ہیں اور ضروری نہیں ہے جو اخلاقی طور پر بہتر لگتا ہو وہ قانونی طور بھی ٹھیک ہو۔

علی گوہر نے کہا: ’کسی بھی طالب علم کا ڈوپ ٹیسٹ ان کی مرضی کے بغیر کرانا غیر قانونی ہے اور اس کی اجازت قانون میں نہیں ہے۔‘

گوہر کے مطابق کسی بھی شخص کا زبردستی ڈوپ ٹیسٹ کرانا آئین پاکستان کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق: ’کسی کی عزت نفس اور گھر کی پرائیویسی کو مجروح نہیں کیا جا سکتا اور کسی سے ثبوت اگلوانے کے لیے ان پر تشدد بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کے پروفیسر ڈاکٹر فضل ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک احسن اقدام ہیں طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور تمام ملازمین کا بھی یہ ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ 

تاہم انہوں نے کہا کہ اس دوران اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور یہ تمام ٹیسٹ پرایئویسی میں کیے جانے چاہییں۔ اگر کسی کا ٹیسٹ مثبت بھی آجائے تو اس کو خفیہ رکھنا چاہیے اور اس طلب علم کے لیےعلاج معالجے کا بندوبست کرنا چاہیے۔

پشاور یونیورسٹی کے طالب علم اور طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے پشاور یونیورسٹی کے ناظم تقویم الحق نے کہا کہ ان کی تنظیم اس فیصلے کی حمایت کرے گی لیکن اس سے پہلے زیادہ اہم یہ ہے تعلیمی اداروں میں منشیات کی سپلائی لائن کاٹی جائے۔

قانون لانے کی کوششیں

رواں سال جون میں قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے اراکین عبدالکبر چترالی اور صلاح الدین کی جانب سے طلبہ کے لیے ڈوپ ٹیسٹ لازمی کرانے کے لیے ایک بل بھی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، تاہم اس بل کو منظور نہیں کیا گیا تھا۔

اس بل پر بحث کے دوران بعض اراکین نے تنقید کر کے بتایا کہ ڈوپ ٹیسٹ لازمی کرانے کے بعد یہ طلبہ سمیت ان کے والدین کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بن سکتا  جبکہ اس حوالے سے پہلے قوانین موجود ہیں جن میں طلبہ کے نمونے لیے جاتے ہیں اور اس پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت اینٹی نارکوٹکس فورس کام رہے ہیں۔

طلبہ کے لیے ڈرگ ٹیسٹ لازمی کرانے کے لیے 2018 میں بھی ایک کوشش کی گئی تھی اور اسمبلی میں دو ایکٹ لائے گئے تھے، تاہم وہ بھی اس وقت اسمبلی سے پاس نہیں ہوئے تھے۔

ان میں سے ایک ایکٹ پاکستان مسلم لیگ کے اس وقت کی رکن اسمبلی آسیہ نیاز جبکہ دوسرا بل پاکستان پیپلز پارٹی کے اس وقت کی رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی نے پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نویں جماعت سے یونیورسٹی تک کے طلبہ کے لیے سالانہ ڈرگ ٹیسٹ لازمی قرار دی جائے۔ تاہم یہ قانون بھی اسمبلی سے پاس نہ ہو سکا تھا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ڈرگ کنٹرول کے 2013 میں کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں 60 لاکھ سے زائد افراد نے کسی نہ کسی نشے کا استعمال کیا ہے۔ منشیات کا استعمال 25 سے 39 عمر کے افراد میں بہت عام ہے اور سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جو تقریباً 10 فیصد ہے۔

اس کے بعد سے اس حوالے سے ادارے کا کوئی اور سروے موجود نہیں۔ 

اسی رپورٹ کے مطابق منشیات کا استعمال کرنے والوں میں آٹھ لاکھ 60 سے زائد افراد ہیروئین استعمال کرنے والے ہیں جبکہ تین لاکھ سے زائد افراد افیون استعمال کرنے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق منشیات استعمال کرنے والوں میں 40 لاکھ ایسے افراد ہیں جو کسی نہ کسی نشے کے عادی بن چکے ہیں اور ان کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر اعزاز جمال مردان میڈیکل کمپلیکس میں شعبہ سائیکائٹری کے رجسٹرار ہیں اور نشہ کرنے والے مریضوں کا بھی علاج کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گو کہ ملک میں طلبہ میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے کوئی سروے موجود نہیں ہے تاہم تعلیمی اداروں اور زیادہ تر ہاسٹلز میں رہنے والے طلبہ علاج کے لیے ان کے پاس آتے ہیں۔

اعزاز کے مطابق ہسٹری لینے کے وقت ہم ان نوجوانوں سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ انہوں نے نشہ کیوں شروع کیا ہے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ دوستوں کے درمیان بیٹھ کر نشہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے عادت پڑ جاتی ہے۔

ڈاکٹر اعزاز طلبہ کے ڈوپ ٹیسٹ کے حق میں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جتنی جلدی ڈرگ ٹیسٹ میں نشے کی تشخیص ہوجائے، اتنا ہی ان طلبہ کا علاج با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ ’اگر ابتدائی دنوں میں نشے کا استعمال معلوم ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں ایسے طلبہ کا علاج ہو سکتا ہے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر تعلیمی اداروں میں ماہر نفسیات رکھے جائیں تو اس سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے تو کیا صوبے میں ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں ہسپتالوں میں سائیکائٹرسٹ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا: ’تعلیمی اداروں میں ماہر نفسیات کو تعینات کیا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اضلاع کی سطح پر کم از کم ایک ماہر نفسیات تو ہونا چاہیے تاکہ وہ دیگر ذہنی دباؤ کے مسائل سمیت منشیات کا استعمال کرنے والوں کا علاج بھی کر سکے۔‘

ہم نے ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان سے اس  صورت حال اور ڈوپ ٹیسٹ کرانے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

کمشنر پشاور ریاض احمد محسود کے ترجمان فیروز شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کمشنر نے رواں ماہ سے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ کے ڈرگ ٹیسٹ کرانے کی تجویز صوبائی حکومت کو دی ہے اور صوبائی حکومت کی منظوری کے بعد یہ ٹیسٹ شروع کیے جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس