خیبر امن مارچ: ’امن کے لیے نکلے تھے، پولیس نے مقدمہ درج کیا‘

’امن مارچ‘ منتظمین کے مطابق ’ہمارے کسی ساتھی کو گرفتار نہیں کیا گیا لیکن یہ عموماً ہوتا ہے کہ ایسے ہر امن مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ منتظمین دوبارہ نشست کریں گے اور دیکھیں گے کہ معاملہ کیسے آگے بڑھایا جائے۔‘

چار ستمبر 2022 کو ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں ہونے والا ’امن مارچ‘ (سکرین گریب)

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں خیبر سیاسی اتحاد کی جانب سے حالیہ ’امن مارچ‘ کرنے والے منتظمین کے خلاف مقامی پولیس نے بدھ کو مقدمہ درج کیا۔

منتظمین کے مطابق ضلع خیبر میں ’امن او امان کی خراب صورتحال‘ کے خلاف یہ مارچ کیا گیا جبکہ پولیس کا موقف ہے کہ متظمین میں سے کچھ مقررین نے ریاستی اداروں کے خلاف ’نعرے بازی کی اور نازیبا الفاظ‘ استعمال کیے۔

یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 121، 153، 504، 505 اور دفعہ 506 کے تحت درج کیا گیا ہے۔

مارچ کے چھ متنظمین کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے اور یہ مقدمہ ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ ضلع خیبر کے ضلعی پولیس افسر نے مقدمے کی تصدیق کرتے ہوئے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

مقدمے کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں مارچ کے منتظمین میں سے کچھ لیڈر سکیورٹی فورسز کے خلاف نعرہ بازی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مذکورہ منتظمین نامزد ملزمان قرار دیے گئے اور ان کی گرفتاری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

دفعات کیا ہیں؟

دفعہ 121: ریاست کے خلاف اعلان جنگ کرنا یا ریاست کے خلاف جنگ میں کسی کی معاونت کرنا۔
دفعہ 153: کسی کو انتشار اور تشدد کے لیے ابھارنا۔
دفعہ 504: کسی شخص کی توہین اس وجہ سے کرنا کہ اس سے امن عامہ میں خلل پڑے۔
دفعہ 505: کسی شخص، فوج کے سپاہی یا آفیسر کے خلاف بغاوت کرنا  اور لوگوں کو اشتعال دلانا۔
دفعہ 506: کسی کو ایسے تشدد پر ابھارنا جس سے کسی دوسرے شخص کی موت واقع ہو جائے یا وہ زخمی ہوجائے۔

واقعے کا پس منظر 

’امن مارچ‘ چار ستمبر 2022 کو نکالا گیا شرکا نے خیبر کے علاقے ڈوگ درہ سے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ تک مارچ کیا۔ 

امن مارچ کے اعلامیے میں لکھا گیا کہ ’امن مارچ میں شریک سیاسی و سماجی تنظیموں کے نمائندوں کو ضلع خیبر کے علاقے باڑہ، تیراہ اور ان کے مضافات میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش ہے۔ امن کی ذمہ دار ریاست ہے اور ریاست ان علاقوں میں دیرپا امن کو یقینی بنائے۔‘

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ ان علاقوں میں مشکوک افراد کی جانب سے سرگرمیاں تشویش ناک ہیں اور ’ریاستی اداروں کو علاقے میں امن و امان کے لیے مشکوک افراد کی سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔ دہشت گردی کے گذشتہ ادوار میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں، مشران اور عوام کی لازوال قربانیوں کی بدولت علاقے میں امن کی فضا قائم ہو چکی ہے، لیکن اب علاقہ مکینوں کو دوبارہ وہی حالات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ علاقے میں مختلف لوگوں کو بھتے، ٹارگٹ کلنگ، اور دھمکی آمیز کالوں کی شکایات ہیں۔ تیراہ میں فورسز پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں، اس لیے ریاست  اقدامات کرے۔ علاقے کے لوگ ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔‘

مارچ منتظمین کا موقف

مارچ منتظمین میں شامل خان ولی آفریدی ان افراد میں سے ایک ہیں جن پر یہ مقدمہ درج کیا گیا۔ وہ خیبر سیاسی اتحاد کے عہدیدار بھی ہیں۔ خان ولی آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے مارچ اگر کیا ہے تو یہ پورے خیبر میں امن کے لیے کیا گیا ہے اور ہمارا مدعا بھی یہی تھا کہ علاقے میں امن کو یقینی بنایا جائے۔ تقاریر میں بھی امن کی بات کی گئی ہے، نعروں میں بھی حصول امن کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، شرکا اور سیاسی نمائندوں کی جانب سے بھی امن کی بات کی گئی تاہم پولیس نے الٹا ہم پر ہی مقدمہ درج کیا جو افسوس ناک ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خان ولی نے بتایا کہ ’ابھی تک ہمارے کسی ساتھی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ عموماً ہوتا ہے کہ ایسے ہر امن مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ عدالتی معاملہ ہے اور اس کو ہم دیکھتے رہیں گے۔ خیبر سیاسی اتحاد کے نمائندے دوبارہ ایک نشست کریں گے اور اس مقدمے کے بارے میں گفت و شنید کریں گے کہ معاملے کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔‘

تیراہ سے مکینوں کی ’نقل مکانی‘

دوسری جانب ضلع خیبر کے سیاحتی مقام تیراہ سے علاقہ مکینوں کی نقل مکانی کی خبریں بھی گردش کر رہی ہے۔

ضلعی پولیس آفیسر محمد عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس علاقے میں گرمیوں کے موسم میں لوگ آتے ہیں اور سردیوں میں دوبارہ نقل مکانی کرتے ہیں۔ تاہم نقل مکانی کے بارے میں ابھی تصدیق شدہ معلومات نہیں ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’سکیورٹی فورسز کی جانب سے ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ علاقہ مکینوں کو نقل مکانی کی ہدایت دی گئی ہیں یا نہیں۔‘

تیراہ وادی کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ سکیورٹی اداروں کی ایک نشست ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تیراہ کے کچھ علاقوں سے لوگ چند دن کے لیے نقل مکانی کر لیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس بارے میں ہمیں مزید معلومات نہیں ہیں کہ آیا یہاں پر کسی آپریشن کا منصوبہ ہے یا کوئی اور وجہ ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ کچھ علاقوں کے لوگوں کو نقل مکانی کے لیے کہا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے نقل مکانی شروع بھی کر دی ہے۔‘

سرکاری  ذرائع کے مطابق وادی تیراہ میں سکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کے بعدچھوٹے پیمانے پر فوجی آپریشن کے پیش نظر سکیورٹی حکام نے سندانا، نغاری، اور سندا پال کے رہائشیوں کو اپنے گھر خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق علاقے میں تعینات سکیورٹی فورسز اہلکاروں پر رات گئے ہونے والے حملے کے بعد مقامی سکیورٹی کمانڈرز نے بدھ کو سندانا علاقے میں رہائشیوں سے ملاقات کی اور انہیں عارضی طور پر علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا۔

سرکاری ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندانا اور ننگروسا کے علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران نو مشتبہ افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جبکہ سکیورٹی فورسز کی ہدایت ملنے کے بعد حال ہی میں درے نغاری علاقے میں واپس جانے والے متعدد خاندانوں نے ایک بار پھر گھروں کو خالی کرنا شروع کر دیا ہے۔

اسی علاقے میں سپاہ قبائل کے بے گھر ہونے والے پانچ ہزار خاندانوں نے دس برس بعد 13 جون 2022 کو اپنے اپنے گھروں میں واپس جانا شروع کیا تھا۔ باڑہ کے سات قبائل میں سے سپاہ قبائل آخری تھے جنہیں سکیورٹی حکام کی جانب سے منظوری کے بعد واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق گزشتہ کچھ دنوں کے دوران وادی تیراہ کے علاقے میدان میں علیحدہ علیحدہ حملوں میں کم از کم دو فوجی اہلکار زخمی ہوئے جبکہ وادی میں فورسز کی ایک گاڑی کو بھی دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان