پنجاب: تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال پر سزا بڑھانے کی تجویز

وزیر اعلیٰ پنجاب کے مطابق ’تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اوراستعمال پر ادارے کے مالکان اور ملازمین بھی ذمہ دار ہوں گے۔‘

چھ اپریل 2020 کو راولپنڈی میں ایک نشے کا عادی  شخص سڑک کے کنارے دوسرے فرد کو ہیروئن کا ٹیکہ لگا رہا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)
 

وزیر اعلیٰ پنجاب کے لاہور سیکریٹریٹ میں ہفتے کی شام ہونے والے اجلاس کے دوران جاری کردہ سفارشات کے مطابق تعلیمی اداروں میں منشیات کی خرید و فروخت اور استعمال پر سزائیں بڑھا کر کم از کم سزا دو سال قید اور زیادہ سے زیادہ عمر قید تجویز کی گئی ہیں۔

دوران اجلاس پنجاب  کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی نے سخت قانون سازی کی ہدایات جاری کی ہیں جو پہلے سے زیر غور انسداد منشیات ایکٹ کی منظوری کے بعد جاری کی گئیں۔

اس ضمن میں پنجاب کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنس ایکٹ 2022 کا مسودہ تیار کیا گیا ہے جس کے مسودے پر دوران اجلاس سیکرٹری ایکسائز کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔

’تعلیمی اداروں کے مالکان بھی ذمے دار‘

وزیر اعلیٰ پنجاب کے مطابق:

’تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی اوراستعمال پر ادارے کے مالکان اور ملازمین بھی ذمہ دار ہوں گے۔‘

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ’منشیات کے استعمال میں خوشحال گھرانوں کے طلبہ کی ایک کثیر تعداد شامل ہے۔‘

رابطہ کار برائے انسداد منشیات مہم کے مطابق ’آئندہ چار سال کے دوران پاکستان میں منشیات کے استعمال میں غیر معمولی اضافے کا خدشہ ہے نیز تعلیمی اداروں بڑھتے رجحان کی وجہ  سے طلبہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔‘

پاکستان میں ہر سال اعشاریہ پانچ فیصد منشیات کے عادی افراد کا اضافہ

انسداد منشیات مہم کے کوارڈینیٹر سید ذوالفقار علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2013 میں ہونے والے سروے کے مطابق ایک کروڑ افراد ملک بھر میں منشیات کے عادی تھے جن کی تعداد میں اب اضافہ ہو چکا ہے۔‘

’ہر سال مزید 0.5 فیصد لوگ منشیات کے عادی بنتے جا رہے ہیں جو تشویشناک امر ہے لیکن اب تک کوئی سرکاری موثر پالیسی نہیں بنائی گئی۔‘

سید ذوالفقار علی شاہ کے مطابق اگر پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں میں منشیات استعمال کی روک تھام کے لیے قانونی سازی کا فیصلہ کیا ہے تو خوش آئند ہے مگر اس پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔

’پنجاب کے تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں اور کالجوں کی سطح پر منشیات کا استعمال مسلسل بڑھنے کی شکایات موصول ہوتی ہیں مگر ان تعلیمی اداروں کو اپنی بدنامی کا بھی خیال ہوتا ہے اس لیے خاموش ہوجاتے ہیں۔‘

منشیات کی مقامی طور پر تیاری اضافے کی اہم وجہ

سید ذوالفقار علی شاہ نے دوران گفتگو انکشاف کیا کہ ’آئندہ چار سال کے دوران اس لیے منشیات کے استعمال میں اضافے کا خدشہ ہے کیوں کہ چرس، شیشہ اور ویٹ اب مقامی طور پر ہی بننے لگے ہیں۔‘

’تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے مڈل کلاس گھرانوں کے بچوں میں گٹکا، سگریٹ اور چرس کا استعمال زیادہ دیکھا گیا ہے۔‘

کوارڈینیٹر نے کہا کہ ’زیادہ تر طلبہ باہر سے نشہ کرکے تعلیمی اداروں میں آتے ہیں اور بعض ہوسٹلز میں بھی عادی ہو رہے ہیں۔‘

’نشے کے عادی عام افراد بھی نشے کے باعث مر رہے ہیں اور لاوارث لاشیں ملنے کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ افراد پہلے معمولی مقدار سے شروع کرتے ہیں اور نشہ آور انجکشنز کےاستعمال تک پہنچ کر دم توڑ جاتے ہیں۔‘

منشیات کی روک تھام پر قانون کی جلد از جلد حتمی شکل

وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی نے ’پنجاب کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنس ایکٹ 2022 ‘ قانون کو جلد حتمی شکل دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ ایکٹ کو پنجاب اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوران اجلاس وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ منشیات کے سدباب کے لیے خود مختار ادارہ قائم کیا جائے گا اور خصوصی عدالتیں قائم ہوں گی نیز اینٹی نارکوٹکس پولیس سٹیشن بھی بنائے جائیں گے۔

وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ’نئی نسل کو ہر قیمت پر منشیات کے زہر سے بچائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے اور تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کرنے والے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔‘

وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے ایکٹ کو مزید موثر بنانے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اس ایکٹ کو مزید موثر بنانے کے لیے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل شروع کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس