کراچی کی سڑکوں پر ڈاکوؤں کی من مرضیاں

کنپٹی پر پستول رکھے جانے پر تو اچھے اچھوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ ہمارے بھی رونگٹے کھڑے ہوگٸے۔ پورا بیگ ہی ڈاکو کو تھما دیا۔

26 ستمبر، 2022: کراچی میں صحافی تنویر بہلیم سے کوریج کے دوران ڈکیتی کا نشانہ بنے۔ (ٹائمز آف کراچی)

’تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے ہمارے حوالے کردو‘۔۔۔میں جو اپنی مطلوبہ بس خراب ہونے پر سڑک پر دوسری بس کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔اچانک اس افتاد پر گھبرا گٸی۔

کنپٹی پر پستول رکھے جانے پر تو اچھے اچھوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ ہمارے بھی رونگٹے کھڑے ہو گٸے۔ پورا بیگ ہی ڈاکو کو تھما دیا۔

اس بیگ میں ہماری مہینے بھر کی کماٸی تھی۔ موباٸل فون، شناختی کارڈ، آفس کارڈ اور ڈاٸری تھی۔ جب بھی ہمیں کسی شعر کی آمد ہوتی تھی ہم اسے اس ڈاٸری میں لکھ دیتے تھے۔

اس لٹیرے کو سارا سامان سونپنے کے بعد ہمارے ہاتھ خالی تھے اور دل خوف اور دہشت سے بھرا تھا۔ سوچا دفتر یا گھر کیسے پہنچیں۔

کچھ دیر پہلے تک تو سوچتے رہے کہ کیا کریں۔ یونہی غاٸب دماغی کھڑے رہے۔ کچھ سجھاٸی نہیں دے رہا تھا۔ ہماری یہ حالت دیکھ کر سامنے سے گزرنے والے شہری جو ڈاکو کے پاس اسلحہ دیکھ کر ہماری مدد کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے۔ انہوں نے آکر ہمارا حال احوال پوچھنا شروع کر دیا۔ لیکن ہم سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔

ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے زبان تالو سے چپک گٸی ہو۔ ہماری دوستیں اس حال میں دیکھتیں تو کبھی یقین نہ کرتیں کہ ہمیں بھی چپ رہنا آتا ہے۔

خیر کسی طرح رکشہ کر کے گھر پہنچے اور گھر والوں سے کرایہ لے کر رکشے والے کو دیا اور اس واقعے کا ایسا خوف طاری ہوا کہ بیمار پڑ گٸے۔ اور راہ سے گزرنے والے ہر موٹر ساٸیکل والے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ اور ایسا لگتا جیسے وہ سٹریٹ کرمنل ہو اور ابھی سب کچھ چھین کر لے جاٸے گا۔

ہم سے موباٸل چھنا تھا۔ بھلے دنیا کی نظر میں اس کی قیمت کچھ ہزاروں کی ہو لیکن کوٸی ہم سے پوچھے کتنے مہینوں کی محنت کے بعد وہ سمارٹ موباٸل لے پاٸے تھے۔ کتنے مہینوں کی ڈیوٹیاں کرکے وہ موباٸل ہمارے ہاتھ آیا تھا۔ کہاں کہاں دل مار کر وہ موباٸل خریدا تھا۔

کبھی اپنے کھانے کی پسند کی چیز کی قربانی دی تو کبھی کسی اچھے ڈریس سے نظریں چرانی پڑیں تب کہیں جا کے یہ خواب پورا ہوا تھا مگر ان ڈاکوؤں نے چند منٹ میں میرا خواب ملیا میٹ کر دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب کراچی کے ایک صحافی تنویر بہلیم ڈکیتی واردات کا نشانہ بنے ہیں۔ جنہوں نے دو سال کی محنت کے بعد وی لاگز بنانے کے لیے کیمرا اور دیگر سب چیزیں خریدیں تھیں۔

جو کیمرا لے کر کسی شہری کی آواز بننے گٸے تھے کیا معلوم تھا کہ کرمنلز آسانی سے ان کے گزر بسر کا سامان چھین کر لے جاٸیں گے۔ یہ صحافی جو سب کے لیے آواز اٹھاتے ہیں ان کی آواز کون بنے گا۔

سب کچھ لٹ جانے کے بعد ایک پر اعتماد شخصیت کے مالک تنویر بہلیم کو روتے ہوٸے دیکھا تو میرا قلم رک نہیں پایا۔ اور سوچا کہ ہم بے بس لوگ کوٸی اور طاقت تو نہیں رکھتے۔ قلم کی طاقت سے تو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں۔

گذشتہ دنوں بھی ہمارے کولیگ چنگچی رکشے میں آتے ہوٸے اپنے موباٸل فون سے محروم ہوگٸے تھے۔ چنگچی میں بیٹھے کسی چور اچکے نے بڑی صفاٸی سے ان کا موباٸل فون نکال لیا تھا۔

ان صحافی نے کافی عرصے تک بے روز گاری کاٹی تھی۔ انہوں نے صحافتی ذمے داریوں کی  خاطر بڑی مشکل سے پیسے جوڑ کر موباٸل خریدا تھا۔ مگر اک لمحے میں ہی وہ کسی چور اچکے کی ملکیت بن گیا۔

ایسا لگتا ہے کراچی شہر میں سٹریٹ کرمنلز اور چوروں کی من مرضیاں چل رہی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے انہیں کنٹرول نہیں کر پا رہے۔

شہری یونہی لٹتے جا رہے ہیں اور خاموشی کا کڑوا گھونٹ پیتے جارہے ہیں۔ شہری پہلے ہی مہنگاٸی، غربت اور بے روزگاری کے روگ سے عاجز آچکے ہیں اوپر سے سٹریٹ کرمنلز نے قیامت ڈھاٸی ہوٸی ہے۔

شہری سوال کررہے ہیں کب ان ڈاکوؤں سے نجات ملے گی اور وہ بلا خوف و خطر شہر میں آمدورفت کرسکں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ