میڈیا کا چند ہاتھوں میں ارتکاز خطرناک

رپورٹ کے مطابق اگر چار میڈیا مالکان کو آپ قابو کر لیں تو سمجھیں 50 فیصد عوام کو کنٹرول کر لیا۔

(فریڈم نیٹ ورک)

ایک تازہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں آدھے سے زیادہ میڈیا ملکیت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے یعنی بڑے چار ٹی وی چینل، ریڈیو سٹیشن اور اخبار ملک کے 50 فیصد سے زائد صارفین کو کور کرتے ہیں۔

میڈیا اونرشپ مانیٹر (ایم او ایم) پاکستان نے عالمی میڈیا حقوق کے لیے سرگرم تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز اور پاکستانی میڈیا تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے مشترکہ طور پر کی جانے والے اس تحقیق میں پاکستان کو میڈیا کے ارتکاز کے اعتبار سے ’ہار رسک‘ یا بڑے خطرے سے دوچار ملک قرار دیا ہے۔

رپورٹ کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے تحقیق کار عدنان رحمت کا کہنا تھا کہ اگر ان چار میڈیا مالکان کو ’آپ قابو کر لیں تو سمجھیں 50 فیصد عوام کو کنٹرول کر لیا۔ اسی لیے میڈیا ملکیت کا چند مخصوص ہاتھوں میں ہونا ملک میں پلورزم کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔‘

اسلام آباد کے سینئر صحافی محمد ضیا الدین نے بٹن دبا کر اس تفصیلی رپورٹ پر مبنی ویب سائٹ کا افتتاح کیا۔ یہ ویب سائٹ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں دستیاب ہے۔

پاکستان میں قانونی طور پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ کوئی شخص یا کمپنی کتنی میڈیا چینلز کا مالک ہوسکتا ہے۔ تاہم ایک کمپنی پانچ چینل کھول سکتی ہے لیکن اس کمپنی کا مالک دوسری کپمنی کے ذریعے پانچ مزید چینل بھی کھول سکتا ہے۔   

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق سامعین وناظرین کے اعتبارسے پاکستان میں ٹاپ کے 40 نیوز ٹیلی وژن چینلز، ریڈیو سٹیشنز، اخبارات اور نیوز ویب سائٹس میں سے زیادہ تر کی ملکیت چند ہاتھوں میں ہے، اس کی بنیادی وجہ ایک سے زیادہ ادارے کی ملکیت پرقانونی پابندیوں کا ہونا ہے۔ یہ صورتحال عمومی طورپر دستیاب معلومات کے ذرائع کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے جبکہ ملک کے میڈیا منظرنامے میں خبروں اور آراء کا تنوع اور اجتماعیت بھی محدود ہوتی جا رہی ہے۔

’اگر ملکیت کا تنوع معلومات کے ذرائع کے تنوع کی عکاسی کرتا ہے تو پھر دونوں پاکستانی میڈیا سامعین و ناظرین کے لیے محدود ہیں کیونکہ ملک میں زیادہ سے زیادہ ذرائع ابلاغ کی ملکیت بہت کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو مزید وسیع پیمانے پر ذرائع ابلاغ کی ملکیت کی ضرورت ہے تاکہ خبروں کے ذرائع میں زیادہ تنوع کو یقینی بنایا جائے۔‘

رپورٹ میں اشتہارات کے حکومت کی جانب سے استعمال پر بھی نظر ڈالی گئی اور بتایا گیا کہ اس بارے میں معلومات تک رسائی یا آڑ ٹی آئی کے ذریعے درخواست پر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ سال 2017-18 کے اعدادوشمار کے مطابق میڈیا کو 81 ارب روپے سے زیادہ کے اشتہارات دیئے گئے۔

سامعین وناظرین کے حصہ کے لحاظ سے اہم نتائج کا خلاصہ

 ٹیلی وژن: ٹاپ کے چار ٹی وی چینلز تمام نیوز ٹی وی چینلز کے دو تہائی سے زائد ناظرین پر حاوی ہیں۔

 ریڈیو: ٹاپ کے چارریڈیو سٹیشنز، تمام نیوز ریڈیو سامعین کے نصف سے زیادہ پرحاوی ہیں۔

 اخبارات: ٹاپ کے چار اخبارات تمام اخباری قارئین پر حاوی ہیں۔

  نیوزویب سائٹس: ٹاپ کی چار مقامی نیوز ویب سائٹس تمام آن لائن ناظرین وقارئین کے نصف سے زیادہ پر حاوی ہیں۔

رپورٹ کا کہنا ہے جب تک میڈیا صعنت کو شفاف نہیں بنایا جائے گا صارفین اور صحافتی آزادیوں کی جگہ تواتر سے کم ہوتی جائے گی۔

تقریب میں میڈیا امور کے ماہر جاوید جبار، پیپلز پارٹی کے سابق سینٹر فرحت اللہ بابر، سینیئر صحافی مظہر عباس، تجزیہ نگار ناظر محمود، سینیئر صحافی فوزیہ شاہد، وفاقی انفارمیشن کمیشن کے زاہد عبداللہ اور حقوق انسانی کے کارکن نعیم مرزا نے بھی خطاب کیا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت