سوات: ’بیٹے کا خون میں لت پت یونیفارم دیکھنا برداشت سے باہر تھا‘

سکول وین حملے میں زخمی ہونے والے طالب علم کے والد صفی اللہ نے بتایا کہ بیٹے کو صبح تیار کرکے وین میں بھیجا تھا اور سکول سے کچھ فاصلے پر ایک گلی کے اندر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور والی کھڑکی سے فائرنگ کی گئی۔

سوات کے سکول کی ایک وین جس پر 10 اکتوبر 2022 کو حملہ کیا گیا تھا۔ اس وین کے گرد حکام حصار لگا کر تفتیش کر رہے ہیں (عزیز بونیری)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے گلی باغ میں گذشتہ روز سکول وین حملے میں زخمی ہونے والے بچوں کے والدین دہشت اور غم کے زیر اثر اپنے بچوں کے علاج معالجے میں مصروف ہیں۔

زخمی ہونے والے ایک بچے کے والد صفی اللہ، جو اپنے بچے کو ہسپتال سے فارغ کر کے گھر لے جارہے تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’گولیاں لگنے کی وجہ سے بیٹے کا خون زخم کی جگہ سے ابل کر باہر آرہا تھا۔ ان کو ایکسرے مشین پر لٹایا گیا تھا لیکن میں سمجھ رہا تھا کہ اگر اتنا خون بہا ہے تو حالت نازک ہوگی لیکن بعد میں ڈاکٹروں نے کامیاب سرجری کی نوید سنائی۔‘

صفی اللہ نے بتایا کہ ان کا بیٹا دوسری جماعت کا طالب علم ہے جبکہ وہ  سوات کے ایک سرکاری کالج میں بطور استاد فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

صفی اللہ کا تعلق ضلع چترال سے ہے لیکن ملازمت کی غرض سے وہ سوات میں رہائش پذیر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو صبح تیار کرکے وین میں بھیجا تھا اور سکول سے کچھ فاصلے پر ایک گلی کے اندر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور والی کھڑکی سے فائرنگ کی گئی۔

بقول صفی اللہ: ’فائرنگ ڈرائیور پر ہوئی تھی لیکن ہوسکتا ہے اس کے جسم سے گولی نکل کر میرے بیٹے کو لگی ہو۔ بیٹے کے جسم میں دو گولیاں پیوست تھیں جس میں ایک کندھے اور دوسری گردن میں سینے کے قریب لگی تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ گولی کہ وجہ سے ہڈی یا کسی حساس عضو کو نقصان نہیں پہنچا۔‘

صفی اللہ نے بتایا کہ جس جگہ پر وین پر حملہ ہوا اسی جگہ پر ایک دکاندار کے پاس سکول کے ایک استاد کا نمبر تھا اور دکاندار نے استاد سے رابطہ کر کے واقعے کے بارے میں بتایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’استاد نے مجھے بتایا اور میں جلدی سے خوازہ خیلہ ہسپتال چلا گیا جہاں پر بچے کا ایکسرے جاری تھا۔ مجھے نظر آرہا تھا کہ بیٹے کے زخم سے خون ابل رہا تھا۔ وہ لمحہ برداشت سے باہر تھا، مجھے یوں لگا کہ وہ شدید زخمی ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’مجھے نظر آرہا تھا کہ بیٹے کا ٹراؤزر مکمل طور پر خون میں لت پت تھا جس پر میں مزید پریشان ہوگیا کہ شاید گولی جسم کے نچلے حصے میں بھی لگی ہو لیکن مجھے دیگر ساتھیوں نے بتایا کہ گولی لگنے کے بعد بچہ ڈرائیور کی گود میں گر گیا تھا، جس کی وجہ سے ڈرائیور کے جسم سے نکلا ہوا خون اس کے ٹراؤزر اور پورے جسم پر موجود ہے۔

’یہ ایک درد ناک صورت حال تھی۔ بیٹا خون میں لت پت نظر آرہا تھا جو ایک والد کے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں ہے۔‘

صفی اللہ کے بیٹے کو سیدو شریف ہسپتال ریفر کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے دو سرجریاں کیں جو کامیاب رہیں اور بالآخر ان کے بیٹے کو آج ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’بچے کی والدہ کی حالت بالکل غیر تھی۔ ان کو محلے کے لوگوں نے بعد میں بتایا تھا کہ ییٹے کی وین پر حملہ ہوا ہے اور وہ زخمی ہے۔ وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھیں جب تک انہوں نے بیٹے کو خود آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا۔‘

پولیس کا بیان

سکول وین پر حملے کے حوالے سے سوات پولیس نے واقعے کے بعد ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حملہ آور کا ٹارگٹ سکول کے بچے نہیں بلکہ ڈرائیور تھا۔

پولیس کے مطابق وین میں 11 سے 12 بچے سوار تھے، جو بچوں کو سکول لے کر جا رہی تھی اور راستے میں نا معلوم موٹرسائیکل سوار نے ڈرائیور پر فائرنگ کی، جس سے ڈرائیور ہلاک جبکہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے دو بچوں میں سے ایک شدید اور دوسرا معمولی زخمی ہوا تھا۔

سوات میں سکول وین پر حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے ڈرائیور حسین احمد کے اہل خانہ اور علاقہ مکینوں کی جانب سے ان کے آبائی علاقے میں دھرنا دیا گیا تھا، جو اب ختم کردیا گیا ہے جبکہ میت کو بھی دفنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

یہ دھرنا سوات کی غیر سرکاری تنظیم اولسی پاسون کی جانب سے دیا  اور دھرنے میں ڈرائیور کے خاندان والے بھی شامل تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان