تنقید کے بعد ایئرپورٹ پر سامان کی لازمی پلاسٹک پیکنگ کا اعلامیہ واپس

وفاقی وزیر شیریں مزاری کے مطابق وہ اس معاملے کی جانچ کا کہیں گی تاکہ معلوم ہو سکے کہ سی اے اے کے کس افسر نے یہ نوٹیفکیشن نکالا۔

 (اے ایف پی)

سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستان تحریک انصاف کے بعض سینیئر رہنماؤں، سوشل میڈیا اور ماحول کے لیے کام کرنے والے رضا کاروں کی سخت تنقید کے بعد اپنا متنازعہ نوٹیکفیشن واپس لے لیا جس کے تحت اندرون و بیرون ملک سفر کرنے والے ہر مسافر کے لیے اپنے چیک اِن سامان کی پلاسٹک کی حفاظتی پیکنگ کروانا ضروری تھا۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اتوار کی رات اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے نوٹیفیکیشن واپس لیے جانے سے متعلق آگاہ کیا۔

 

 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس معاملے کی جانچ کرانے کا کہیں گی تاکہ معلوم ہو سکے کہ سی اے اے کے کس افسر نے یہ نوٹیفکیشن نکالا۔ ’پوری بیوروکریسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہوتا ہے، اور یہ معاملہ وہاں زیر بحث نہیں آیا تھا۔‘

شیریں مزاری کے علاوہ پی ٹی آئی کے ایک اور سینئر رہنما جہانگیر ترین نے بھی اس نوٹیفکیشن پر ناگواری کچھ یوں ظاہر کی تھی۔

 

 

چیک اِن سامان وہ ہوتا ہے جو مسافر جہاز کے کیبن میں اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے جہاز کے نچلے خانے میں لوڈ کرواتے ہیں اور جس کی الگ سے انٹری کروائی جاتی ہے۔

اس پلاسٹک پیکنگ کو ضروری قرار دیے جانے سے پہلے بھی ہوائی اڈوں پر یہ سہولت موجود ہے اور بیشتر مسافر اپنے سامان کی حفاظت کے لیے پلاسٹک کے تھیلے سے پیکنگ بھی کرواتے ہیں، لیکن ایسا کرنا ہر مسافر کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے۔

تاہم سول ایوی ایشن کے اس نوٹیفکیشن کے بعد ہر مسافر کو اپنے چیک اِن سامان کی پیکنگ لازمی ہو گئی تھی۔

پیکنگ کس کمپنی نے کرنی تھی؟

سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے پیکنگ کو لازمی قرار دینے والے سی اے اے کے اعلامیے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ اس پر ایک نام شاہد لطیف کا بھی درج ہے، جنہیں ’ایئر سائرو‘ نامی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو افسر لکھا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کہیں یہ کمپنی سابق ایئرمارشل شاہد لطیف کی تو نہیں؟ ایئر مارشل (ریٹائرڈ) شاہد لطیف پچھلے کچھ عرصے سے ٹی وی سکرینوں پر بطور تجزیہ کار نظر آتے ہیں اور گذشتہ حکومت کے سخت ناقدین میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے جب ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا ’یہ کمپنی ان کے مرحوم بھائی کی ہے جنہوں نے انہیں اس کمپنی کا نگران نامزد کیا تھا اور بھائی کی وفات کے بعد اب وہی اس کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔‘

پلاسٹک پیکنگ کے ٹھیکے کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ یہ ٹھیکہ ان کے بھائی نے حاصل کیا تھا اور اس ٹھیکے کی باقاعدہ نیلامی ہوئی تھی۔

تاہم سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کافی چہ مگوئیاں ہوئیں۔ صحافی طلعت حسین نے اپنی ٹویٹ میں کہا ’شاہد لطیف اس فیصلے سے بہت زیادہ پیسہ بنائیں گے۔‘

 

پیکنگ سے کتنی کمائی متوقع تھی؟

سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ویب سائٹ پر موجود اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں مالی سال 18-2017 کے دوران بیرون و اندرون ملک ہوائی سفر کے لیے جہاز پر سوار ہونے والے مسافروں کی تعداد ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد تھی۔ ان افراد میں سے 74 لاکھ سے زائد بیرون ملک اور 36 لاکھ سے زائد مسافر اندرون ملک سفر کے لیے جہاز پر سوار ہوئے۔

اگر اسی تعداد کو دیکھا جائے اور فی مسافر فی بیگ 50 روپے لیے جائیں تو یہ آمدنی سالانہ 55 کروڑ، 34 لاکھ روپے سے زائد ہوتی۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر مسافر اپنا سامان چیک اِن کرے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ فی مسافر ایک ہی بیگ ہو کیونکہ کچھ ایئرلائنز دو بیگ بغیر کسی اضافی خرچ کے ساتھ لے جانے کی اجازت بھی دیتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر تنقید

سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے جہاں اسے سامان کی حفاظت کے لیے اچھا قدم قرار دیا، وہیں اس فیصلے کی افادیت اور اس سے جڑے مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی۔

ایک صارف منتقیٰ پراچہ کے مطابق ’پیکنگ کی قیمت سب سے آخری مسئلہ ہے کیونکہ لوگ حفاظت کے لیے قیمت ادا کر سکتے ہیں مگر اس وقت کیا ہو گا جب ایک ساتھ کئی پروازیں ہوں گی۔ ایسے میں پروازوں کی تاخیر اور جرمانوں کا ذمہ دار کون ہو گا؟‘

 

 

صحافی عافیہ سلام نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا اور کہا ’اس فیصلے کی وجہ سے مسافروں کو کتنا مزید جلدی ایئرپورٹ آنا ہو گا کیونکہ ہر فلائٹ پر 300 سے زائد مسافر ہوتے ہیں اور سب کو اپنا سامان پیک کروانا پڑے گا۔‘

انہوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں پلاسٹک کے استعمال سے ماحول پر ممکنہ اثرات پر اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جانے کا حوالہ بھی دیا تھا۔

 

راجہ خرم زاہد نامی ایک صارف نے انتہائی دلچسپ تبصرہ کیا کہ ’اب ایئرپورٹ پر بھی شاپر ڈبل کروانا پرے گا۔‘

 

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ