’برطانوی جنگی پائلٹوں کی بھرتی کے لیے چین کا بھاری تنخواہ کا لالچ‘

برطانوی حکام کا دعویٰ ہے کہ چین نے جدید لڑاکا طیارے اڑانے کے ماہر ان ریٹائرڈ فوجی پائلٹوں کو ماہانہ دو لاکھ 40 ہزار پاؤنڈ کے لگ بھگ بھاری تنخواہ کا لالچ دیا ہے۔

 ایک برطانوی پائلٹ سات مارچ 2016 کو بیفورٹ، جنوبی کیرولینا میں میرین کور ایئر سٹیشن بیفورٹ پر فائفتھ جنریشن کے ملٹی رول ایف 35 جنگی طیارے کو اڑاتے ہوئے (اے ایف پی)

چین نے مغربی جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو شکست دینے کے لیے برطانوی رائل ایئرفورس کے 30 سابق پائلٹوں کو بھرتی کرلیا ہے، جس کے بعد برطانیہ کی دفاعی انٹیلی جنس نے ’خطرے کی گھنٹی‘ بجا دی ہے۔

برطانوی حکام کا دعویٰ ہے کہ چین نے ان ریٹائرڈ فوجی پائلٹوں، جن میں وہ پائلٹ بھی شامل ہیں جو جدید لڑاکا طیارے اڑا چکے ہیں، کو ماہانہ دو لاکھ 40 ہزار پاؤنڈ کے لگ بھگ بھاری تنخواہ کا لالچ دیا۔

تاہم برطانیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کیوں کہ چین کی طرف سے سابق برطانوی پائلٹ بھرتی کرنے سے برطانیہ کے کسی موجودہ قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔

ان قوانین میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ بھی شامل ہے، جو جاسوسی اور تخریب کاری سے متعلق ہے، لیکن برطانوی حکام نے ’برطانیہ اور مغربی مفادات‘ کو لاحق ’خطرے‘ کے پیش نظر پائلٹوں کی بھرتی روکنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم عوامی جمہوریہ چین میں پیپلز لبریشن آرمی کے عملے کو تربیت دینے کے لیے بھرتی کے ان چینی منصوبوں روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کر رہے ہیں جن کا مقصد برطانوی مسلح افواج کے حاضر سروس یا سابق پائلٹوں کو تلاش کرنا ہے۔‘

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے نامعلوم ذریعے کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ’اپنا علم آگے منتقل کرنے کے معاملے میں یہ لوگ بہت کشش رکھتے ہیں۔ چینی فضائیہ کی مہارت اور صلاحیتوں میں اضافے کے لیے عظیم تجربے کے مالک پائلٹوں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔‘

چین ریٹائرڈ پائلٹ بھرتی کرنے کے لیے مبینہ طور پر تھرڈ پارٹی سے کام لے رہا ہے جن میں جنوبی افریقہ میں قائم فلائنگ اکیڈمی بھی شامل ہے۔

برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ ان پائلٹوں کی بھرتی کی کوششیں کووڈ 19 کی وبا سے پہلے شروع ہوئیں لیکن چین کی جانب سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سرحدی پابندیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئیں۔ حکام نے مزید کہا کہ حالیہ مہینوں میں بھرتی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک عہدے دار نے سکائی نیوز کو بتایا کہ اگرچہ چین کی طرف سے ہدف بنائے گئے حاضر سروس اور سابق فوجی اہلکاروں کی مجموعی تعداد ابھی تک واضح نہیں ہے لیکن ’یہ یقینی ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہے۔‘

نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ پی ایل اے نے جو پائلٹ بھرتی کیے ان میں سے کسی کو ایف 35 اڑانے کا تجربہ نہیں ہے، جو ایک جدید برطانوی طیارہ ہے۔ اخبار نے مزید بتایا ہے کہ چین سے تنخواہ لینے والے پائلٹ نیٹو کے دوسرے طیارے اڑا چکے ہیں جیسا کہ ٹائیفون، ہیریئر، جیگوار اور ٹورنیڈو۔

دوسرے اتحادی ملکوں کے پائلٹ بھی بھرتی کے اس عمل کا ہدف ہیں۔

ایک ذریعے نے سکائی نیوز کو بتایا: ’چینی پائلٹوں کو مغربی طیاروں پر تربیت نہیں دی جا رہی۔ چینی فضائیہ کی مہارت اور صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے بڑا تجربہ رکھنے والے پائلٹوں سے مدد لی جا رہی ہے۔‘

’درحقیقت چینیوں کو اس بات کا شعور ہے کہ اگر چینی فوج کو اس قسم کے اثاثوں کے مد مقابل آنے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات کا سامنا کرنا پڑا تو جدید ترین حربے، حکمت عملی اور صلاحیتیں کیا ہوں گی۔‘

برطانوی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ سکیورٹی کے حوالے سے زیادہ سخت قانون سازی اور ملازمت کے ایسے کانٹریکٹس کی کوشش کی جا رہی ہیں جن کی بدولت چین کے لیے مزید پائلٹوں کی خدمات حاصل کرنا مشکل تر ہو جائے۔

وزارت دفاع کے ترجمان کے بقول: ’ہم عوامی جمہوریہ چین میں پیپلز لبریشن آرمی کے عملے کو تربیت دینے کے لیے بھرتی کے ان چینی منصوبوں کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کر رہے ہیں جن کا مقصد برطانوی مسلح افواج کے حاضر سروس یا سابق پائلٹوں کو تلاش کرنا ہے۔

’تمام حاضر سروس اور سابق اہلکار آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے دائرے میں آنے کے لیے تیار ہیں اور ہم پوری دفاعی نظام میں معاملات کو خفیہ رکھنے اور راز افشا نہ کرنے کے معاہدے پر نظرثانی کر رہے ہیں جب کہ قومی سلامتی بل کے تحت موجودہ دور کے سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اضافی تدابیر کی جائیں گی۔ ان چیلنجوں میں یہ چیلنج بھی شامل ہے‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا