علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا نیا نظام جو ’رکاوٹیں ختم‘ کر رہا ہے

آگہی ایل ایم ایس کے نام سے نئے آن لائن نظام تعلیم کی بدولت طلبہ خصوصاً خواتین کو تعلیم جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔

پاکستان میں فاصلاتی نظام تعلیم کی بنیاد ڈالنے والی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی تشکیل برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی کی طرز پر 1974 میں رکھی گئی تھی جس نے رواں برس آگہی ایل ایم ایس کے نام سے آن لائن نظام تعلیم متعارف کروا دیا ہے۔

فائزہ اسلم کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل ایجوکیشن کر رہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ یونیورسٹی کا نیا آن لائن نظام تعلیم ’رکاوٹیں ختم کر دے گا۔‘

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اسلام آباد کیمپس کی لائبریری میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے فائزہ اسلم نے بتایا: ’کئی ایسی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے خواتین اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتی تھیں۔ اب یہ رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔‘

انہوں نے یونیورسٹی کے آن لائن نظام تعلیم کی افادیت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اگر خواتین اس کے ذریعے تعلیم حاصل کریں گی تو ان پر ’تناؤ بھی کم ہو گا اور وہ پرسکون رہیں گی۔‘

شادی کے بعد فائزہ کا تعلیمی سلسلہ ٹوٹ گیا تھا لیکن اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے نئے آن لائن نظام نے انہیں تعلیم جاری رکھنے کی امید دی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے بی آئی ٹی آنرز کیا ہوا ہے۔ پھر میری شادی ہو گئی۔ میرے شوہر کی ملازمت تھی تو مجھے راولپنڈی آنا پڑا۔‘

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا پرانا نظام تعلیم تھا تو فاصلاتی لیکن اس میں طلبہ کو اپنی اسائنمنٹس اور پرچے بذریعہ ڈاک اپنے مختص کردہ ٹیوٹر یعنی استاد کر بھیجنے ہوتے تھے، جو ان کی مارکنگ کر کے یونیورسٹی کو ارسال کرتے تھے، جس کے بعد طلبہ کو نمبر دیے جاتے تھے۔

اس پر بات کرتے ہوئے فائزہ نے بتایا کہ ’ڈاک والے پرانے طریقے میں یہ تھا کہ اس میں گھر سے نکلنا پڑتا تھا اور خود جا کر جمع کروانا ایک طویل مرحلہ ہوتا تھا۔ پہلے تحریر کریں۔ پھر کسی کو بھیجیں یا خود جائیں، تو اس میں وقت زیادہ لگتا تھا۔‘

نئے نظام کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اب ’ہر طالب علم اپنے گھر میں بیٹھ کر (اسائمنٹس) جمع کروا سکتا ہے۔‘

فائزہ اسلم دو بچوں کی والدہ بھی ہیں، جو سکول جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ گھر کے کام کاج کی ذمہ داری بھی سرانجام دیتی ہیں۔ خواتین کے لیے نئے آن لائن نظام کی افادیت پر بات کرتے ہوئے فائزہ نے کہا کہ ’اگر میں گھر سے نکلوں گی تو مجھے دیکھنا پڑے گا کہ میرے بچوں کے پاس گھر میں کوئی موجود ہو۔ یہ چیزیں ایک خاتون کے لیے کرنا مشکل ہوتا ہے۔ خاص کر ایک خاتون خانہ کے لیے۔‘

ایک خاتون خانہ کی نظر سے نئے نظام تعلیم پر ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ (خاتون خانہ) ان سب ذمہ داریوں کے ساتھ تعلیم بھی جاری رکھ سکتی ہیں تو یہ بہت اچھا ہے۔ ان کو بہت فائدہ ہو گا۔ وہ پر سکون رہیں گی۔‘

آگہی ایل ایم ایس کیسے کام کرتا ہے؟

کامران میر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر آئی ٹی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو آگہی ایل ایم ایس کے حوالے سے بتایا: ’ایل ایم ایس بنیادی طور پر لرننگ مینیجمنٹ سسٹم ہے، جسے آپ آگہی ایل ایم ایس کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے طلبہ استاد کے ساتھ بات کر سکتے ہیں اور اپنی اسائنمنٹس جو پرانے طریقہ کار کے مطابق اپنے ٹیوٹر کو بذریعہ ڈاک بھیجا کرتے تھے۔ اب اس ٹیکنالوجی آنے کے بعد طلبہ اپنی اسائنمنٹس ٹائپ کر کے آگہی ایل ایم ایس پر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ مرحلہ ایڈمیشن سے شروع ہوتا ہے۔ جب ایک طالب علم آن لائن اپلائی کرتا ہے۔ سی ایم ایس میں جب ایڈمیشن ہو جاتا ہے تو اس کو موبائل پر ایک پیغام آتا ہے کہ آپ کا ایڈمیشن کنفرم ہو چکا ہے۔ اس کے بعد جو مقامی کیمپس ہے وہ طلبہ کو ٹیوٹر مختص کرتے ہیں۔ اس کے بعد ڈیٹا سی ایم ایس سے ایل ایم ایس پر آ جاتا ہے اور طلبہ کو موبائل پر پیغام چلا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایل ایم ایس پر لاگ ان کرنے کے بعد طالب علم کو وہ تمام متعلقہ مضامین جس میں انہوں نے داخلہ لیا ہے وہ نظر آ رہے ہوتے ہیں اور وہ ان مضامین میں اپنی اسائمنسٹس کو جمع کروانے کی تاریخ کے حساب سے اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔‘

کامران میر نے مزید بتایا کہ ’جو پوسٹ گریجویٹ پروگرامز ہیں جن کی ہماری آن لائن کلاسز یا ورک شاپس ہوتی ہیں اس کے لیے بھی ایل ایم ایس میں طلبہ کو مضامین کے مطابق ورک شاپس کا شیڈول بھی نظر آ رہا ہوتا ہے کہ کون سی ورک شاپ کب ہو گی۔‘

آگہی ایل ایم ایس سے کیا فرق پڑے گا؟

سید ضیا الحسنین نقوی یونیورسٹی میں ڈائریکٹر ایڈمیشنز ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس نئے طریقے سے طلبہ خصوصاً خواتین کو آسانی ہو گی۔

بقول ضیا: ’اگر اسائمنٹ لکھی ہوئی ہے اور ڈاک کے ذریعے بھیجنی ہے تو ڈاک خانے جانا ہے، اسے پوسٹ کرنا ہے تو اس کی بجائے اب نسبتاً آسان ہے کہ موبائل ہر گھر میں موجود ہے۔ ہر فرد کے پاس موجود ہے۔ وہ وہیں پر اپنے اسائمنٹ کو پی ڈی ایف بنا لیں۔ تحریر کر لیں اور اس کو اپ لوڈ کریں۔ اس طرح وہ آسانی سے اپنا کام مکمل کر سکتی ہیں اور خواتین کے لیے ایسا کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔‘

ضیا الحسنین نقوی نے واضح کیا کہ ڈاک والا پرانا نظام ابھی ختم نہیں کیا جا رہا کیوں کہ پاکستان بھر میں بہت سے علاقوں میں ابھی انٹرنیٹ کی بہتر سہولیات موجود نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آنے والے چند سالوں میں انہیں امید ہے کہ ہر سال 10 سے 12 لاکھ افراد مختلف پروگراموں میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس