دو اور جانیں ’مشتعل افراد‘ کی نذر

کراچی کا واقعہ بطور قوم ہماری سوچ کے متعلق ہے۔ ہمیں یا تو قانون کا خوف نہیں یا پھر اس پر بھروسہ نہیں۔

پاکستان میں عوام کا قانون نافذ کرنے والوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے (اے ایف پی)

علاقہ نہایت پسماندہ ہے، وہاں کے لوگ غریب ہیں، لوگ خوف زدہ تھے، افواہ پھیلی، لوگ مشتعل ہو گئے۔

یہ باتیں کراچی کے اس واقعے کے بعد کی جا رہی ہیں جس میں ’مشتعل افراد‘ نے تشدد کر کے دو انسانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔

ویڈیو دیکھیے تو دل دہل جائے۔ بڑے کیا اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کم عمر بچے بھی پتھر اٹھا کر زندہ افراد کو ایسے مار رہے ہیں کہ شاید کوئی کسی جانور کو بھی نہ مارے۔

ماجرا کیا ہوا کہ یہ ہجوم انسان کے ایک ہجوم سے جانوروں کا ریوڑ بن گیا اور بے دردی سے دو انسانوں کو مار ڈالا۔

کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں بچوں کے اغوا کا خوف پہلے سے ہی تھا اور جب یہ افواہ پھیلی کہ یہ دونوں افراد بچے اغوا کرنے آئے ہیں تو لوگوں نے ان پر تشدد شروع کردیا۔

ان افواہوں کے بعد کالونی میں کوئی بھی شخص اپنے بچوں کو اکیلا سکول بھی نہیں جانے دیتا۔

ایسے میں جب کسی نے کہا کہ یہ دونوں افراد بچوں کو اغوا کرنے آئے ہیں، تو لوگ مشتعل ہوگئے۔

ایک واحد پولیس اہلکار کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کو ہجوم دھکے دے کر پیچھے کر دیتا ہے اور وہ بے بسی سے کھڑا بس دیکھ ہی سکتا ہے۔

پولیس کے بلند و بالا دعوے ایک بار پھر کہ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا اور جو بھی اس گھناؤنے واقعے میں ملوث ہے اس کو سزا ضرور ملے گی۔

یہ واقعہ ابھی ہم سب کی نظروں کے سامنے تازہ ہے اور سوشل میڈیا پر اس کو دوسرا رخ دیا جا رہا ہے اور وہ ہے لسانیت کا۔

سندھی اور آباد کاروں کا۔ سب آباد کاروں کو ایک ہی کٹھرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔

آبادکاروں کو جرائم پیشہ اور ڈرگ ڈیلرز قرار دے دیا گیا ہے۔

یہ واقعہ آبادکاروں کے بارے میں نہیں۔ اور نہ ہی دو انسانوں کو لاٹھیوں، پتھروں اور لاتوں سے مار دینے کا یہ واقعہ جرائم پیشہ لوگوں یا ڈرگ ڈیلرز کے بارے میں ہے۔

یہ صرف اور صرف ہماری سوچ بطور قوم کے بارے میں ہے۔ ہم کو قانون کا یا تو خوف نہیں یا پھر اس پر بھروسہ نہیں۔

آخر ہم کیوں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر اکتفا کرتے ہیں بجائے اس کے کہ ہم ان دونوں افراد کو پولیس کے حوالے کرتے اور پھر قانون کو کام کرنے دیتے۔

ایک بار لندن سے آئے ایک دوست کے ساتھ بات چیت ہو رہی تھی اور وہ بتا رہا تھا کہ کیسے اس کی ڈرائیو کے ساتھ ایک درخت ہے جس کے باعث اس کو گاڑی پارک کرنے اور نکالنے میں دشواری ہوتی ہے۔

میں نے کہا کہ کٹوا دو تو کہتا ہے کہ انگلینڈ پاکستان کی طرح خالہ جی کا گھر نہیں کہ خود ہی کام کر لو اور قانون کے بارے میں سوچو بھی نہیں۔  

میں نے کہا کہ یہ بھی کیا ملک ہے کہ کچرا پھینکنا ہو تو سب علیحدہ کرو اور پھر پھینکو، درخت کاٹنا ہو تو مہینوں اجازت کا انتظار کرو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تو اس نے کہا کہ ہر چیز کے لیے اجازت لینی ہوتی ہے اور اسی لیے وہاں کا نظام اتنا بہتر چل رہا ہے۔

ہر شخص کو معلوم ہے کہ کوئی غیر قانونی کام کیا تو آج نہیں تو کل پکڑے جائیں گے۔

وہاں بھی پاکستانیوں کے طرح انسان ہی ہیں اور وہ بھی غیر قانونی کام کرنا چاہتے ہیں لیکن قانون پر سخت عمل درآمد کے باعث وہ نہ تو قانون توڑتے ہیں اور نہ اسے اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔

لیکن پاکستان میں حالات قدرے مختلف ہیں۔ یہاں پر عوام کو اعتبار قانون نافذ کرنے والوں پر سے اٹھ گیا ہے۔

اب آپ پنجاب نکل جائیں تو آپ کے دوست کہیں گے کہ بھائی کوئی جنگلی جانور آپ پر پڑ جائے تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنا  اور دعا کرنا کہ پنجاب پولیس کے ہتھے نہ چڑھ جاؤ۔

ایسے میں اگر عوام کا اعتبار قانون نافذ کرنے والوں پر نہیں تو بالکل درست ہے۔

حکومتِ وقت اس سے قطع نظر کہ کس جماعت کی حکومت ہے اس کا اولین فرض ہر شہری کو محفوظ رکھنا ہے اور اگر وہ اس میں ناکام رہتی ہے تو وہ حکومت ہی ناکام ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ