وسط مدتی انتخابات: بائیڈن نتائج سے مطمئن، ٹرمپ کے لیے ’مایوس کن‘

وسط مدتی انتخابات کے بعد ایوان میں مجموعی طور پر رپبلکن کے پاس207 اور ڈیموکریٹس کے پاس 189 نشستیں جبکہ سینیٹ میں رپبلکن کے پاس 49 اور ڈیموکریٹس کے پاس 48 نشستیں ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نو نومبر 2022 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے سٹیٹ ڈائننگ روم سے امریکی وسط مدتی انتخابات کے ایک دن بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد روانہ ہو رہے ہیں (اے ایف پی/ مینڈل این گان)

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے وسط مدتی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے ایک دن بعد ان کے ذریعے اپنے موقف کی توثیق کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ڈیموکریٹس کے لیے’ایک مضبوط رات‘ تھی۔

تاہم ملک کے دارالحکومت میں منقسم حکومت کے امکان کے باوجود امریکی صدر کے بیان سے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اپنا نقطہ نظر تبدیل کریں گے۔

دوسری جانب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ انتخابی نتائج ’کسی حد تک مایوس کن‘ تھے، ایوان میں رپبلکنز کی ممکنہ فتح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بدھ کو اپنے ٹروتھ سوشل پیج پر پوسٹ کیا کہ ’میرے ذاتی نقطہ نظر سے یہ ایک بہت بڑی فتح تھی۔‘

نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے بعد ایوان میں مجموعی طور پر رپبلکنز کے پاس207 اور ڈیموکریٹس کے پاس 189 نشستیں جبکہ سینیٹ میں رپبلکن کے پاس 49 اور ڈیموکریٹس کے پاس 48 نشستیں ہیں۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جو بائیڈن نے بدھ کو انتخابات کے بعد ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا، ’میں اپنے رپبلکن ساتھیوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔ امریکی عوام نے اپنی توقع ظاہر کر دی ہے کہ رپبلیکنز بھی میرے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘

انہوں نے ان خدشات کو مسترد کر دیا کہ رپبلیکنز جو ایوان زیریں کا کنٹرول حاصل کرنے والے ہیں، ان کی انتظامیہ اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات کریں گے۔

جو بائیڈن کی پارٹی کے پاس اب بھی سینیٹ کو کنٹرول کرنے کا ایک ممکنہ راستہ ہے، جس سے ان کی وفاقی ججوں اور انتظامیہ کے عہدے داروں کو نامزد کرنے کی صلاحیت برقرار ر ہے گی۔

انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹرز افراط زر اور جرائم سے تنگ آچکے ہیں اور برسرِاقتدار پارٹی کو سزا دینے کے خواہاں ہیں۔ جو بائیڈن نے تسلیم کیا کہ بہت سے امریکی ملک کی سمت سے مایوس ہیں۔

انہوں نے کہا، ’رائے دہندگان کی مایوسی واضع تھی، مجھے سمجھ آ گئی ہے۔‘

اس کے باوجود، جو بائیڈن نے اپنا ایجنڈا تبدیل کرنے میں بہت کم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’میں بنیادی طور پر کچھ بھی تبدیل نہیں کروں گا۔‘

 امریکی صدر نے کہا ان کا ارادہ ہے کہ وہ رپبلکن کانگریس کے رہنماؤں کو فون کریں۔ انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ کیا امریکی عوام بھی وہ بڑی تبدیلیاں چاہتے ہیں جو کہ رپبلکن چاہتے ہیں، جیسا کہ سوشل سکیورٹی یا طبی سہولتوں سے متعلق فوائد پر نظرثانی کرنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وائٹ ہاؤس میں اکثریت کے حصول کے لیے حالیہ دوڑ میں سابق امریکی صدر کو امید تھی کہ وہ رپبلکن کو واضح برتری دلائیں گے لیکن منگل کو ہوئے وسط مدتی انتخابات میں تھوڑی سے اکثریت اور ان کے اہم انٹرا پارٹی حریف کے اچھے نتیجے سے لگتا ہے کہ وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔

اگرچہ امکان ہے کہ رپبلیکنز کانگریس کے کم از کم ایک چیمبر میں ڈیموکریٹک پارٹی سے کنٹرول حاصل کر لیں گے، لیکن تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں زیادہ سیٹیں نہیں ملیں گی۔

ابتدائی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایوان نمائندگان میں رپبلکنز اکثریت حاصل کرلیں گے لیکن صرف چند نشستوں سے۔

جبکہ سینیٹ کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ شاید ابھی نہ ہو اور کا انحصار دسمبر کے اوائل میں جنوبی ریاست جارجیا میں ہونے والے انتخابات پر ہوسکتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق منگل کو ہونے والے انتخابات سے قبل سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کے سربراہ مچ میک کونل نے ٹرمپ کے حمایت یافتہ کچھ امیدواروں کے ’معیار‘ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ