انڈین خاتون افسر کے تقریب میں بچے کو ساتھ لانے پر بحث کیوں؟

ریاست کیرالہ کے ضلع پتھانم تھٹا کی ڈسٹرکٹ کلکٹر دیویا ایس آئیر 30 اکتوبر کو اپنے ساڑھے تین سالہ بیٹے ملہار کو ایک تقریب میں لے کر گئیں، جس کے بعد ایک بحث کا آغاز ہوگیا۔

انڈیا کی ریاست کیرالہ کے ضلع پتھانم تھٹا کی ڈسٹرکٹ کلکٹر دیویا ایس آئیر 30 اکتوبر 2022 کو چھٹے بین الاقوامی فلم فیسٹیول آف ادور کی اختتامی تقریب  میں اپنے تین سالہ بیٹے کے ہمراہ (تصویر: ڈسٹرکٹ کلکٹر پتھانم تھٹا/ فیس بک)

انڈیا میں گذشتہ ہفتے بیٹے کو عوامی تقریب میں لے جانے والی خاتون سرکاری افسر سوشل میڈیا پر پیشہ ورانہ فرائض اور بچوں کی دیکھ بھال کے معاملے پر بحث کے آغاز کا سبب بن گئی ہیں۔

انڈین ریاست کیرالہ کے ضلع پتھانم تھٹا کی ڈسٹرکٹ کلکٹر دیویا ایس آئیر 30 اکتوبر کو اپنے ساڑھے تین سالہ بیٹے ملہار کو چھٹے بین الاقوامی فلم فیسٹیول آف ادور کی اختتامی تقریب میں لے کر گئیں۔

فیسٹیول کے منتظمین میں سے ایک ریاستی اسمبلی کے سپیکر چتائم گوپاکمار بھی تھے جنہوں نے تقریب کی ویڈیو آن لائن شیئر کی۔

فیس بک پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیویا کو ان کے بیٹے کے ساتھ تین روزہ تقریب کے آخری دن سٹیج پر بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد انہیں تقریر کے لیے ڈائس کی طرف جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور اس وقت بھی انہوں نے بیٹے کو اپنی بانہوں میں اٹھا رکھا تھا۔ اس کے بعد ان کے بیٹے کو اپنی والدہ کے گلے میں بازو ڈالے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں اپنی والدہ کی تقریر کے دوران تین سالہ ملہار کو سٹیج پر ادھر ادھر جاتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

 

ریاستی اسمبلی کے سپیکر نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ دیویا کا بیٹا تقریب میں ’رونق‘ کا سبب بن گیا۔ تاہم بعد میں انہوں نے اپنی ویڈیو ڈیلیٹ کر دی۔

بعدازاں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بحث شروع ہوگئی کہ آیا دیویا کو اس تقریب میں بیٹے کو ساتھ لانا چاہیے تھا جس میں وہ سرکاری حیثیت سے شریک تھیں۔

متعدد سوشل میڈیا صارفین نے پیشہ ورانہ فرائض اور والدین کی ذمہ داریوں کو ملانے پر دیویا پر تنقید کی ہے، لیکن بہت سے صارفین نے ان کی تعریف بھی کی، جن کا کہنا تھا کہ جو کام انہوں نے کیا اس طرح کے کاموں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اسے معمول پر لایا جانا چاہیے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو میں دیویا نے کہا کہ ’سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل غیر متوقع تھا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’یہ کوئی سرکاری تقریب نہیں تھی‘ اور یہ کہ انہوں نے ’کبھی نہیں سوچا کہ اسے اس طریقے سے دیکھا جائے گا۔‘

بقول دیویا: ’میرا ماننا ہے کہ بچوں کو ایسی جگہوں پر لے جانا جہاں وہ عام طور پر نہیں جاتے، اس سے ان کی سوچ کا دائرہ وسیع کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ ہمہ گیر انداز میں بڑا ہونے کے قابل بنتے ہیں۔‘

خاتون افسر نے مزید کہا: ’مجھے سرکاری افسر اور ایک ماں کے طور پر ہفتے میں 24 گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے بہت سے کردار ہوتے ہیں اور میں ان سے کسی ایک کو بھی ترک نہیں کر سکتی۔ مجھے دونوں کو ساتھ لے کر چلنے اور پیشہ ورانہ زندگی کو متوازن بنانا پڑتا ہے۔ جو بات میں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کے لیے اسے قبول کرنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انڈین خاتون سرکاری افسر کے خاوند کے ایس سبرینادھن نے بھی ان کی حمایت کی ہے جو سابق قانون ساز اور ریاست میں یوتھ کانگریس کے نائب صدر ہیں۔

سبرینادھن نے تین نومبر کو اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’ملازمت پیشہ ماؤں کو کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن معاشرے کو چاہیے کہ وہ انہیں کام کے لیے مثبت ماحول فراہم کرے۔‘

بعد ازاں انڈین اخبار دی انڈین ایکسپیریس میں لکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کام کی جگہوں کو تبدیل کرنے اور ایسا بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ قبول کریں۔‘

انہوں نے نشاندہی کی نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن دودھ پیتے بچے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ساتھ لے کر گئیں اور آسٹریلوی سینیٹر لاریسا واٹرز نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بچے کو دودھ پلایا۔

انڈین خاتون افسر دیویا کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد سامنے آنے والا ’سب سے بڑا نتیجہ‘ یہ ہے کہ اس سے اس معاملے پر بحث کا آغاز ہوا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین