فرانسیسی ایئر پورٹ پر 18 سال رہنے والے ایرانی شہری کا انتقال

ایرانی شہری کی کہانی سے کسی حد تک متاثر ہو کرامریکی ہدایت کار اور پروڈیوسر سٹیون سپیل برگ نے ’دا ٹرمینل‘ کے نام سے فلم بنائی تھی۔

12 اگست 2004 کو لی گئی اس فائل تصویر میں مہران کریمی ناصری پیرس چارلس ڈی گال ہوائی اڈے کے ٹرمینل ون میں اپنی زندگی سے متاثر فلم کے پوسٹر کے پاس کھڑے ہیں(اے ا یف پی)

فرانسیسی حکام نے کہا ہے کہ 18 سال تک پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پر رہنے والے ایرانی شہری ہفتے کو ہوائی اڈے پر ہی چل بسے.

ایرانی شہری کی کہانی سے کسی حد تک متاثر ہو کرامریکی ہدایت کار اور پروڈیوسر سٹیون سپیل برگ نے ’دا ٹرمینل‘ کے نام سے فلم بنائی تھی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق مہران کریمی ناصری نے طویل عرصے سے ائیر پورٹ کو اپنا گھر قرار دے رکھا تھا۔

پیرس ایئرپورٹ اتھارٹی کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہوائی اڈے کے ٹرمینل ٹو ایف پر دوپہر کے قریب مہران کریمی ناصری کو دل کا دورہ پڑا جو جاں لیوا ثابت ہوا۔

پولیس اور میڈیکل ٹیم نے انہیں طبی امداد فراہم کی لیکن ان کی جان بچانے میں ناکام رہے۔

ناصری 1988 سے 2006 تک ایئرپورٹ کے ٹرمینل نمبر ایک میں رہے۔ پہلی مرتبہ اس لیے کیونکہ ان کے پاس فرانس میں رہنے کے لیے مطلوبہ دستاویزات نہیں تھیں اور اس کے بعد انہوں نے بظاہر اپنی مرضی سے ایئرپورٹ پر رہائش اختیار کر لی۔

ناصری کئی سال تک پلاسٹک کے بینچ پر سوتے رہے اور ایئرپورٹ پر کام کرنے والوں سے دوستی کر لی۔

وہ عملے کے واش روم میں نہاتے، ڈائری لکھتے، رسائل پڑھتے اور آتے جاتے مسافروں کو دیکھتے رہتے۔

ایئرپورٹ کے عملے نے انہیں ’لارڈ الفرڈ‘ کا نام دے رکھا تھا اور وہ مسافروں کے لیے چھوٹی موٹی مشہور شخصیت بن چکے تھے۔ انہوں نے بینچ پر بیٹھ کر پائپ پیتے ہوئے 1999 میں اے پی کو بتایا تھا، ’آخر کار میں ایئر پورٹ چھوڑ دوں گا لیکن میں اب بھی پاسپورٹ یا ٹرانزٹ ویزے کا انتظار کر رہا ہوں۔‘

اس موقعے پر ناصری کمزور دکھائی دیے۔ ان کے بال لمبے اور کم تھے۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی اور گال پچکے ہوئے تھے۔

ناصری 1945 میں ایران کے علاقے سلیمان میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ ایرانی علاقہ ہے جو اس وقت برطانیہ کے ماتحت تھا۔ ان کے والد ایرانی اور والدہ برطانوی شہری تھیں۔

وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1974 میں ایران سے برطانیہ منتقل ہو گئے۔

ایران واپسی پر انہوں نے بتایا کہ انہیں شاہ ایران کے خلاف احتجاج پر انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور بعد میں پاسپورٹ کے بغیر ملک بدر کر دیا گیا۔

انہوں نے یورپ کے کئی ملکوں میں سیاسی پناہ کی درخواست دی۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) نے پناہ گزین کی حیثیت دے دی لیکن ناصری کا کہنا تھا کہ وہ بریف کیس جس میں ان کے پناہ گزین ہونے کا سرٹیفکیٹ تھا، وہ پیرس کے ریلوے سٹیشن پر چوری کر لیا گیا۔

بعد ازاں فرانس کی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا لیکن انہیں ملک بدر کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ ان کے پاس کوئی سرکاری دستاویز نہیں تھی۔

وہ 1988 میں میں چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پہنچے اور وہیں مقیم ہو گئے۔ اس کے بعد افسر شاہی کی عدم توجہ اور امیگریشن کے سخت ہوتے قوانین کی وجہ سے وہ کئی سال تک ایسی جگہ رہائش پذیر رہے جہاں قانونی طور پر رہنے کی اجازت نہیں ہے۔

بالآخر جب انہیں پناہ گزین کی حیثیت سے دستاویزات مل گئیں تو انہوں نے حیرت اور ایئر پورٹ چھوڑنے پر عدم تحفظ کا اظہار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مبینہ طور پر پناہ گزینی کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور نتیجتاً مزید کئی سال تک ایئرپورٹ میں قیام پذیر رہے۔ حتیٰ کہ 2006 میں انہیں ہسپتال داخل کروایا گیا اور اس کے بعد وہ پیرس میں واقع شیلٹر ہوم میں رہے۔

ہوائی اڈے پر ان کے دوست بن جانے والوں کا کہنا ہے کہ کسی کھڑکی کے بغیر جگہ پر کئی سال تک رہنے سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوئی۔

1990 کی دہائی میں ایئرپورٹ کے ڈاکٹر نے ان کی جسمانی صحت پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ’وہاں پتھر بن چکے ہیں۔‘

ایک ٹکٹ ایجنٹ دوست نے ان کا موازنہ ایسے قیدی کے ساتھ کیا جو ’قید خانے سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘

حکام نے کہا کہ اپنی موت سے کئی ہفتے پہلے ناصری نے ایک بار پھر چارلس ڈی گال ایئرپورٹ پر رہنا شروع کر دیا تھا۔

ناصری کی کہانی سے کسی حد تک متاثر ہو کر 2004 کی دہائی میں دا ٹرمینل نامی فلم بنائی گئی جس میں ٹام ہینکس نے کردار ادا کیا۔

اس کے علاوہ ’لوسٹ ان ٹرانزٹ‘ کے نام سے فرانسیسی فلم اور ’فلائیٹ‘ کے نام سے تھیئٹر ڈراما کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ