18 برس تک پیرس ایئرپورٹ پر پھنسے رہنے والے ایرانی شہری کا انتقال

مہران کریمی ناصری پلاسٹک کے ایک سرخ بنچ پر سوتے تھے، ہوائی اڈے کے عملے سے دوستی کرتے، عملے کے لیے بنائے گئے باتھ رومز میں نہاتے، اپنی ڈائری لکھتے، میگزین پڑھتے اور گزرنے والے مسافروں کو دیکھتے رہتے۔

12 اگست 2004 کو مہران کریمی ناصری پیرس چارلس ڈی گال ہوائی اڈے کے ٹرمینل ون پر اپنی زندگی سے متاثر فلم کا پوسٹر دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

پیرس کے مرکزی ہوائی اڈے چارلس ڈیگال پر 18 برس تک پھنسے رہنے والے ایرانی شہری کا ہفتے کے روز انتقال ہو گیا۔

ان کی طویل مشکل زندگی پر ہالی وڈ میں ’دا ٹرمینل‘ کے نام سے فلم بھی بنائی گئی جس میں ٹام ہینکس نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پیرس ایئرپورٹ اتھارٹی کے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مہران کریمی ناصری دوپہر کے قریب ہوائی اڈے کے ٹرمینل ایف ٹو میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

ہدایت کار سٹیون سپیل برگ نے 2004 میں مہران کریمی ناصری کی زندگی سے متاثر ہو کر دا ٹرمینل فلم بنائی تھی جس میں ٹام ہینکس نے مشرقی یورپ کے شہری کٹر نوورسکی کا کردار نبھایا تھا جو نیویارک کے جان ایف کینیڈی ہوائی اڈے کے ٹرمینل پر اس وقت پھنس جاتے ہیں جب انہیں امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی اور فوجی بغاوت کے باعث وہ اپنے آبائی ملک واپس جانے سے بھی قاصر تھے۔

سٹیون سپیلبرگ کی کمپنی ’ڈریم ورکس پروڈکشن‘ نے مبینہ طور پر ناصری کو اس کی کہانی کے حقوق کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر ادا کیے تھے۔

ایک طبی ٹیم نے ناصری کا علاج کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کی زندگی بچا نہیں سکے۔ ناصری 1988 سے 2006 تک ہوائی اڈے کے ٹرمینل ون میں رہے جس کی وجہ پہلے رہائشی دستاویز کا نہ ہونا تھا تاہم بعد میں یہ بظاہر ان کا اپنا انتخاب تھا۔

مہران کریمی ناصری پلاسٹک کے ایک سرخ بنچ پر سوتے تھے، ہوائی اڈے کے عملے سے دوستی کرتے، عملے کے لیے بنائے گئے باتھ رومز میں نہاتے، اپنی ڈائری لکھتے، میگزین پڑھتے اور گزرنے والے مسافروں کا جائزہ لیتے رہتے۔ ہوائی اڈے کے عملے نے انہیں لارڈ الفریڈ کا نام دیا اور وہ مسافروں کے لیے ایک چھوٹی سی مشہور شخصیت بن گئے۔

اپنے بینچ پر ایک پائپ سگریٹ پیتے ہوئے، لمبے پتلے بالوں، دھنسی ہوئی آنکھوں اور کھوکھلے گالوں کے ساتھ کمزور دکھائی دینے والے ناصری نے 1999 میں دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ ’بالاخر میں اس ہوائی اڈے سے باہر نکل جاؤں گا۔ لیکن میں ابھی تک پاسپورٹ یا ٹرانزٹ ویزا کا انتظار کر رہا ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ 1945 میں ’سلیمان‘ میں پیدا ہوئے جو اس وقت برطانیہ کے زیر انتظام ایرانی خطہ تھا۔ اس سے قبل انہوں نے یورپ کے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دی۔ بیلجیئم میں یو این ایچ سی آر نے انہیں پناہ گزینوں کی دستاویز فراہم کیں لیکن انہوں نے کہا کہ ان کا بریف کیس جس میں پناہ گزین ہونے کا سرٹیفکیٹ موجود تھا، پیرس کے ٹرین سٹیشن سے چوری ہو گیا تھا۔

بعد میں فرانسیسی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا لیکن ان کے پاس کوئی سرکاری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں کہیں ڈی پورٹ نہیں کر سکے۔ وہ اگست 1988 میں چارلس ڈی گال ایئرپورٹ پہنچے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔

سرخ فیتے کی مزید پیچیدگیاں اور بڑھتے ہوئے سخت یورپی امیگریشن قوانین کی وجہ سے وہ سالوں تک ’نو مینز لینڈ‘ میں پھنسے رہے۔

بالآخر جب انہیں پناہ گزین ہونے کے کاغذات موصول ہوئے تو انہوں نے ہوائی اڈے سے  نکلنے کے بارے اپنے خدشات اور پریشانی کو بیان کیا۔ مبینہ طور پر انہوں نے ان دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور وہ 2006 میں ہسپتال میں داخل ہونے تک کئی سال وہیں رہے اور بعد میں پیرس کی ایک پناہ گاہ میں منتقل ہو گئے۔

ہوائی اڈے کے اہلکار نے بتایا کہ اپنی موت سے چند ہفتوں پہلے ناصری دوبارہ چارلس ڈی گال ائیرپورٹ پر قیام کر رہے تھے۔

نوٹ: اس رپورٹ کی تیاری میں ایجنسیوں کی معاونت بھی شامل ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا