بس یہ 1992 میں نہیں ہوا تھا

شاہین شاہ آفریدی زخمی ٹانگ اور ٹوٹے دل کے ساتھ لاکھوں مداحوں کی امیدیں بھی اپنے ساتھ میدان سے باہر لے گئے۔

شاہین آفریدی انگلینڈ کے خلاف فائنل میں زخمی ہو کر میدان سے باہر چلے گئے تھے (اے ایف پی)

پاکستان کے لیے سب کچھ تو 1992 جیسا ہی ہوا مگر فائنل میں جو ہوا وہ نہ تو 1992 میں ہوا تھا نہ ہی اس بار بھی کسی کو امید تھی۔

جب سے آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا آغاز ہوا ہے تب سے ہی پاکستان کے لیے پاکستانیوں کو سب کچھ 1992 جیسا ہی لگ رہا تھا۔

پاکستان کے ابتدائی دو میچ ہارنا، دیگر ٹیموں کے میچز میں بارش ہونا اور پھر ’معجزاتی‘ طور پر جنوبی افریقہ کا باہر ہوجانا۔

صرف یہی نہیں۔ پاکستان اور انگلینڈ کے فائنل میں پہنچنے تک تو تاریخ خود کو دہراتی دکھائی دے رہی تھی مگر 1992 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں ایسا تو بالکل نہیں ہوا تھا۔

پاکستان نے جیسے تیسے کچھ رنز تو سکور بورڈ پر جوڑ لیے تھے مگر یہ انگلینڈ جیسی ٹیم کو ہرانے کے لیے کافی نہیں تھے۔

ایسا تو سب ہی کو لگ رہا تھا مگر شاہین آفریدی نے آتے ہی بتا دیا تھا کہ ان کو ایسا بالکل نہیں لگا رہا۔

دوسری طرف سے حارث رؤف نے بھی آتے ہی دکھا دیا کہ انہیں بھی ایسا نہیں لگ رہا کہ یہ رنز کافی نہیں ہیں۔

دو روز قبل ہی انڈیا کو 10 وکٹوں سے ہرانے والی انگلش جوڑی پاکستان کے خلاف ناکام ہو گئی۔ مگر پھر 2019 کے 50 اوور ورلڈ کپ کے فائنل کے سٹار بلے باز کریز پر آئے۔

اس دوران انگلینڈ کی تین وکٹیں گر چکی تھیں، پاکستان بولرز گیندیں گھوم رہی تھیں اور وہ میچ پر پوری طرح سے حاوی ہو چکے تھے۔

ایسے میں بین سٹوکس اور ہیری بروک نے کچھ وقت کے لیے بڑی ہٹس نہ لگانے کا فیصلہ کیا، مگر صورتحال گھمبیر ہونے لگی۔

ایک اینڈ سے شاداب مسلسل اپنے اوورز پھینکے جا رہے تھے اور عادل رشید کو دیکھتے ہوئے امید کی جا رہی تھی کہ شاداب انگلینڈ کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

ہوا بھی ایسا ہی۔ شاداب کے آخری اوور میں بروک جو سٹوکس کے ہمراہ 39 رنز کی پارٹنرشپ بنا چکے تھے نے اچانک بڑا شاٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔

بس یہ وہ لمحہ تھا جب ورلڈ کپ کی ٹرافی پاکستان کے ہاتھ میں آئی بھی اور نکل بھی گئی۔

بروک کا اونچا شاٹ سیدھا شاہین آفریدی کے ہاتھوں میں گیا۔ شاہین نے کیچ تو پکڑ لیا مگر ورلڈ کپ کی ٹرافی گرا دی۔

یہ کیچ کرتے ہوئے شاہین آفریدی خود کو زخمی کر بیٹھے اور انہیں کچھ وقت کے لیے میدان سے باہر جانا پڑا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میچ کے دوران کامینٹری کرتے ہوئے انگلینڈ کے سابق کپتان ناصر حسین نے اس کیچ کو ’دو دھاری تلوار‘ قرار دیا جو میچ میں آگے چل کر صحیح ثابت ہوا۔

ٹھیک اس موقع پر جب پاکستانی بولرز کافی حد تک میچ اپنے حق میں کر چکے تھے اور انگلینڈ یہ حساب کرنے میں مصروف تھا کہ کس پاکستانی بولر کو ٹارگٹ کرنا ہے، بابر اعظم نے خود ہی انہیں ’ٹارگٹ‘ فراہم کر دیا۔

انگلینڈ دباؤ میں تھا۔ اسے پانچ اووروں میں 41 رنز درکار تھے اور پاکستانی بولرز کی تیز اور گھومتی گیندوں کا سامنا تھا۔

زخمی ہو کر میدان سے باہر جانے والے شاہین شاہ آفریدی واپس آئے مگر یہ وہ شاہین نہیں تھے جو وہ کیچ پکڑنے سے پہلے میدان میں اترے تھے۔

انہوں نے اننگز کے 15ویں اوور کی صرف ایک ہی گیند پھینکی اور زخمی ٹانگ اور ٹوٹے دل کے ساتھ لاکھوں مداحوں کی امیدیں بھی اپنے ساتھ میدان سے باہر لے گئے۔

بابر اعظم میلبرن میں ہزاروں شائقین کے شور میں خاموش کھڑے سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اچانک سے ہوا کیا اور اب کرنا کیا ہے۔

کپتان نے گیند افتخار احمد کی جانب پھینکی اور ان سے شاہین شاہ کا نامکمل اوور مکمل کرنے کو کہا۔

شاید بابر اعظم یہ اوور محمد نواز کو بھی دے سکتے تھے مگر شاید وہ اب بھی انڈیا کے خلاف نواز کا آخری اوور بھول نے پائے تھے۔

اسی شاید کے دوران افتخار احمد کی پہلی گیند پر بین سٹوکس نے بابر اعظم کو کیچ اور ورلڈ کپ ٹرافی پکڑنے کا موقع بھی دیا لیکن بابر اعظم کیچ سے اتنی ہی دوری پر رہے جتنا وہ جیت سے دور رہے۔

اور پھر بین سٹوکس اور معین علی نے پاکستان کو میچ میں واپسی کا کوئی موقع نہیں دیا۔

پہلے افتخار اور پھر محمد وسیم جونیئر کے اووروں میں کل 27 رنز بٹور کر انگلینڈ سیدھا ورلڈ کپ چیمپیئن کا تاج سجانے پہنچ گیا۔

بابر اعظم نے بھی میچ کے بعد کہا کہ ’اگر شاہین آفریدی ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔‘

ان کے اس جملے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاہین کے باہر جاتے ہی بابر امید بھی کھو چکے تھے۔

پاکستان کو 1992 میں ورلڈ کپ جتوانے والے کپتان عمران خان نے بھی کہا ہے کہ ’شاہین آفریدی کی انجری وہ چیز ہے جس کا کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’شاہین کو انجری ایک اہم موقع پر ہوئی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان جیت جاتا لیکن ان کے ہونے سے فرق پڑ سکتا تھا۔‘

ویسے تو 1992 میں بھی وقار یونس زخمی ہو کر ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے تھے لیکن شاہین آفریدی کا زخمی ہونا بالکل مختلف ہے۔

اور بس یہی وہ ایک چیز ہے جو 1992 میں نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی کو امید تھی۔

مگر تمام تر اتار چڑھاؤ کے باوجود لاکھوں مداحوں کی امیدیں بندھانے اور فائنل میں لڑنے کے لیے شکریہ پاکستان ٹیم!

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ