ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی کا والد کی صدارتی مہم میں حصہ نہ لینے کا اعلان

ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے 2016 امریکی صدر بن کر دنیا کو حیران کر دیا تھا، نے بڑے اعلان کے لیے ریاست فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ سے اعلان کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ وہ اپنے والد کی 2024 کی انتخابی مہم کا حصہ نہیں بنیں گی۔

بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے والد سے بہت محبت کرتی ہوں۔ اس بار، میں اپنے چھوٹے بچوں اور نجی زندگی کو ترجیح دینے کا انتخاب کر رہی ہوں جو ہم ایک خاندان کے طور پر تخلیق کر رہے ہیں۔

’میں سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اگرچہ میں ہمیشہ اپنے والد سے محبت اور ان کی حمایت کروں گی، لیکن آگے چل کر میں سیاسی میدان سے باہر ایسا کروں گی۔‘

وائٹ ہاؤس میں اپنے والد کے وقت کے دوران، ایوانکا اور ان کے شوہر جیرڈ کشنر دونوں نے سینیئر مشیروں کے طور پر خدمات انجام دیں تھیں۔ خاص طور پر کشنر نے انتظامی پالیسی میں ایک اہم کردار ادا کیا، جس میں مشرق وسطی کے نئے امن منصوبے کا آغاز بھی شامل تھا۔

ایوانکا فلوریڈا میں کل رات ٹرمپ کے صدارتی اعلان کے موقع پر موجود نہیں تھیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ وہ ایک بار پھر وائٹ ہاؤس کی دوڑ میں شامل ہو کر 2024 میں صدارتی انتخاب لڑیں گے۔

امریکی میڈیا کو بھیجے گئے بیان میں ایوانکا کا کہنا تھا: ’میں نے کئی سالوں میں بہت سے کردار ادا کیے ہیں لیکن بیٹی کا کردار سب سے زیادہ بنیادی اور نتیجہ خیز ہے۔ میں اس وقت اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزر رہی ہوں، میامی میں زندگی سے پیار کر رہی ہوں اور نجی شعبے میں واپس آنے کے بعد آزادی اور رازداری۔ میری زندگی کا سب سے بڑا وقت رہا ہے۔‘

ایوانکا ٹرمپ نے ٹرمپ انتظامیہ کے دوران وائٹ ہاؤس میں مشیر کے طور پر کام کیا اور اب وہ میامی میں رہتی ہیں۔

انہوں نے کہا، ’میرے بچے بڑھ رہے ہیں اور میں اپنی فیملی کی زندگی کے اس موڑ پر - اس تال کو برقرار رکھنا چاہتی ہوں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’وقت قلیل ہے اور ہر والدین آپ کو بتائیں گے کہ یہ واقعی اتنی جلدی گزر جاتا ہے۔‘

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Ivanka Trump (@ivankatrump)

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس سال ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں وفاداروں کی کارکردگی اچھی ثابت نہ ہونے کے بعد رپپبلکن پارٹی کے اندر سے ٹرمپ کے منظر سے ہٹنے کے لیے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں، تاہم سابق صدر نے ان پر کان دھرنے سے انکار کر دیا ہے۔

76 سالہ ارب پتی ٹرمپ نے جن کی  2016 کی فتح نے امریکہ اور باقی دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا تھا، ’بہت بڑے اعلان‘ کے لیے ریاست فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس طلب کی اور یہ اہم اعلان کیا۔

اس سے قبل ٹرمپ کے مشیر جیسن ملر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ منگل کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے متعلق اعلان کرنے جا رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ کی تقریر ’بہت پیشہ ورانہ اور بہت نپی تلی ہو گی‘ اور انہیں توقع ہے کہ ان کے حامیوں کا بڑا گروپ ان کی رہائش گاہ پر پہنچ کر کتبے لہرائے گا۔

ٹرمپ کی شہرت ہے کہ ان کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی، اور وہ اب بھی آخری لمحے پر اپنا ذہن تبدیل کر سکتے ہیں، لیکن کئی مہینے سے وہ 2024 کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اپنی خواہش کو مشکل سے ہی چھپا پائے ہیں۔

اب اعلان میں تاخیر کرنا، جیسا کہ ان کے کچھ مشیروں نے مبینہ طور پر انہیں مشورہ دیا ہے، انتہائی نامناسب ہو گا، کیوںکہ ٹرمپ فخریہ انداز میں کہہ چکے ہیں کہ ان کی تقریر ’شاید امریکی تاریخ میں کی جانے والی سب سے اہم ہو گی۔‘

سرخ لہر کی ناکامی

سال 2016 میں ٹرمپ اور ریپبلکنز نے اقتدار میں آکر وائٹ ہاؤس کا انتظام  سنبھال لیا تھا، اور کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت برقرار رکھی۔

ٹرمپ کے تلخ انداز کے خلاف مہم چلا کر 2018 میں ڈیموکریٹس نے ایوان میں لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کرتے ہوئے ایوان میں دوبارہ غلبہ حاصل کیا تھا۔

انہوں نے 2020 میں سینٹ اور وائٹ ہاؤس کی دوڑ میں کامیابی کے بعد امریکہ میں سیاسی طاقت کے تینوں مراکز میں قدم جمانے کا عمل مکمل کر لیا تھا۔

صدر جو بائیڈن، جن کی فتح کو ٹرمپ نے تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا، نے حال ہی میں انکشاف کیا کہ وہ دوسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں، حالانکہ پہلے انہوں نے اس سلسلے میں حتمی فیصلہ اگلے سال کرنے کا کہہ چکے ہیں۔

کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے کے فوراً بعد واشنگٹن کو افراتفری میں چھوڑ کر ٹرمپ نے سیاسی میدان میں رہنے کا انتخاب کیا تھا، اور ملک بھر میں فنڈ اکٹھا کرنے اور ریلیاں نکالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

2022  کے وسط مدتی انتخابات تک، جن میں بائیڈن کے ڈیموکریٹس سے ہارنے کی توقع کی جا رہی تھی، ٹرمپ نے 2020 کے انتخابی نتائج سے انکار کو امیدواروں کے لیے ’لٹمس ٹیسٹ‘ بنا دیا تا کہ وہ اپنی بااثر سیاسی توثیق کا مقصد حاصل کر سکیں۔

لیکن ریپبلکن ’سرخ لہر‘ جس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی تھی عملی شکل اختیار کرنے میں ناکام رہی اور ڈیموکریٹس سینیٹ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھیں گے۔ ابھی تک ایوان نمائندگان کا فیصلہ نہیں ہو سکا جہاں ڈیموکریٹس کو انتہائی معمولی اکثریت ملنے کا امکان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نتائج نے ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی میں موجود ناقدین کا حوصلہ بڑھایا اور انہوں نے منگل کو شروع کی جانے والی مہم کی زیادہ تر رفتار ختم کر دی۔

فلوریڈا میں کامیابی

قدامت پسند دنیا کا ایک حصہ پہلے ہی وائٹ ہاؤس کے لیے ایک اور ممکنہ امیدوار بننے کی طرف متوجہ ہو چکا ہے جو ٹرمپ کی طرح فلوریڈا کا رہائشی ہے یعنی گورنر رون ڈی سینٹس۔

انتہائی دائیں بازو کے 44 سالہ ڈی سینٹس جنوبی ریاست میں دوبارہ انتخاب میں شاندار کامیابی کے بعد مضبوط ہو کر سامنے آئے ہیں اور سابق صدر کو چیلنج کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔

منگل کے اعلان کو بڑے پیمانے پر ٹرمپ کے ممکنہ حریفوں کے بادبانوں کو ہوا سے محروم کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حریفوں میں ڈی سینٹس اور ٹرمپ کے اپنے سابق نائب صدر مائیک پینس بھی شامل ہیں جو منگل کو ہی اپنی یادداشتیں شائع کر رہے ہیں۔

اس وقت ٹرمپ نے اپنی بیس کے ساتھ ایک ناقابل تردید مقبولیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ یہ بیس سرخ بیس بال کیپس پہننے والے ان کے سخت گیر حامی ہیں، جو جوق در جوق ان کی ریلیوں میں آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح رائے معلوم کرنے کے لیے سروے میں اکثریت نے قیاس پر مبنی پرائمری ریپبلکن امیدوار میں انہیں آگے قرار دیا ہے۔

تاہم ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس کے پرجوش دوڑ میں ان کی مدت صدارت اور اس کے بعد کے رویے کے بارے میں ہونے والی تحقیقات رکاوٹ بنے گی، جس کے نتیجے میں وہ بالآخر نااہل ہو سکتے ہیں۔

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان | ترجمہ: علی رضا)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا