نئے آرمی چیف سے توقعات: ’میرٹ پر آنے والا میرٹ پر کام کرتا ہے‘

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے سیاست دانوں کو کیا توقعات ہیں اور ان کے لیے کیا چیلنجز ہوں گے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے قانون سازوں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

وزیراعظم پاکستان کی جانب سے نئے چیف آف آرمی سٹاف کی نامزدگی اور صدر پاکستان کے اس فیصلے کی منظوری دینے کے بعد اس معاملے پر مہینوں سے جاری بحث دم توڑ چکی ہے لیکن اب اس اعلیٰ عسکری عہدے سے جڑی توقعات پر بات شروع ہو چکی ہے۔

قانون سازوں کا کہنا ہے کہ ہر عہدہ اپنی حدود میں کام کرے لیکن جمہوریت اور ملک کی بقا کے لیے سب اداروں کو مل کر ہی کام کرنا ہو گا اور اس وقت آرمی چیف کے لیے سردست مسئلہ پاکستان کی معیشت ہے، جس کا مضبوط ہونا ملکی دفاع کے لیے بہت ضروری ہے۔

نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے سیاست دانوں کو کیا توقعات ہیں؟ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کے لیے کیا چیلنجز ہوں گے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر قانون سازوں سے بات کر کے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آنے والے آرمی چیف کے لیے خطے کے چیلنجز تو موجود ہیں جو سرحدی حالات ہیں یا دوسرے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں، وہ سارے چیلنجز آرمی چیف کو بھی ہیں اور سیاسی حکومت کو بھی ہیں۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’ان معاملات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو گی اور اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔ ہمیں مل کر ہی کام کرنا ہو گا۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد مگسی نے کہا کہ ’سینیئر ترین کو آرمی چیف تعینات کر دیا گیا ہے اور میرے خیال سے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہماری ان سے کیا توقعات ہونی ہیں، وہ سروسز فوجی ہیں۔ وہ اپنا کام کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’چیلنجز پورے ملک کو ہیں اور سب سے بڑامسئلہ ہمارا مالی مسئلہ ہے۔ سرحدی معاملات کا ایک سلسلہ جو موجود ہے سو ہے، لیکن معیشت کو پٹری پر لانے کی ضرورت ہے۔ سب اداروں کو ہی ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی اپنا اپنا کام کرے گا تو دھول نہیں رہے گی۔‘

پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی موسیٰ گیلانی نے کہا کہ ’قوم نئے آرمی چیف سے توقع کرتی ہے کہ خطے کے جو اندرونی و بیرونی چیلنجز ہیں، وہ ان سے جری صلاحیتوں سے نمٹیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی محمود بشیر ورک کا اس حوالے سے کہنا تھا: ’مجھے آرمی چیف اور پوری فوج سے یہ توقع ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور یکجہتی کے لیے وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جن کا نام منتخب ہوا ہے وہ اور دیگر تمام افسر بہت قابل ہیں۔ امید ہے پاکستان کے تقدس کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔‘

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا جمال الدین نے اس حوالے سے کہا کہ ’نئے آرمی چیف سے ہمیں بہت امید ہے۔ سب سے اہم امید یہ ہے کہ فوج نے کہا کہ وہ سیاست سے دور رہیں گے تو یہ آرمی چیف بھی سیاست سے دور رہیں گے۔ وہ چونکہ میرٹ پر منتخب ہوئے ہیں اور جو شخص میرٹ پر منتخب ہوتا ہے وہ میرٹ پہ ہی کام کرتا ہے۔‘

پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ ’آئین نے جو روڈ میپ دیا ہے اور جمہوریت کے جو تقاضے ہیں، ہم اس پر چلیں گے۔ کوئی بھی عہدہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اگر آئینی دائرے میں رہ کر چلے گا تو کبھی غلطی نہیں کر سکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’نئے آرمی چیف کے لیے نیک تمنائیں ہیں۔ اس وقت ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور یہ ایک شخص پر منحصر نہیں ہے۔ سب کو مل کر اور پارلیمان کو بھی حصہ ڈالنا ہو گا کہ ہم ایسا ماحول بنائیں کہ ہر عہدہ اپنے عہدے کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان