برطانیہ میں سروگیسی قوانین میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے: ماہرین

برطانیہ میں سروگیسی کے قوانین کے تحت والدین بننے کے خواہشمندوں کو قانونی حکمنامہ حاصل کرنے میں ایک سال لگ سکتا ہے اور اس عرصے میں بچے کی صحت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

برطانوی جوڑا اور ان کا سات دن کا بیٹا اولیور رابرٹ، جو ایک ایشیائی سروگیٹ ماں کے ہاں پیدا ہوا (اے ایف پی)

برطانیہ میں معاوضے پر ماں بننے (سروگیسی) والی رضاکاروں کی تعداد میں اضافے کے بعد ماہرین نے قانونی والدین بننے کی اجازت ملنے میں لگنے والے وقت کے باعث بچوں کی صحت کو خطرے سے متعلق خبردار کیا ہے۔

سروگیسی کے تحت ایک خاتون کسی فرد واحد یا جوڑے کی خاطر خود کو حاملہ ہونے کے لیے رضاکار کے طور پر پیش کرتی ہے اور بچے کی پیدائش کے بعد مذکورہ فرد واحد یا جوڑے کو بچے کی ماں، والد یا والدین بننا ہوتا ہے۔

سروگیسی سے متعلق موجودہ برطانوی قوانین سروگیٹ کے بچے کے قانونی والدین بننے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے باقاعدہ درخواست دائر کرنا ضروری قرار دیتا ہے اور اس عمل کو مکمل ہونے میں ایک سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

خواہش مند والدین کی درخواست پر حکمنامہ جاری ہونے تک بچے کی قانونی ماں معاوضہ لے کر جنم دینے والی خاتون (سروگیٹ) ہی ہوتی ہیں، چاہے نومولود ان والدین کے ساتھ ہی رہ رہا ہو، جنہوں نے سروگیٹ کی خدمات حاصل کیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طبی ایمرجنسی کی صورت میں ایسے بچے کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

لندن کی فرم بُوڈل ہیٹفیلڈ میں عائلی قوانین پارٹنر ہیریئٹ ایرنگٹن جو سروگیسی کے انتظامات میں مشورے دیتی ہیں، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ والدین بننے کی اجازت حاصل کرنے میں اوسطاً تقریباً چھ ماہ لگ جاتے ہیں، لیکن اس میں ایک سال بھی لگ سکتا ہے۔

ایرنگٹن کے بقول: ’ہو سکتا ہے کہ اب ان (والدین) کا سروگیٹ ماں سے کوئی رابطہ نہ ہو۔ اس دوران اگر کوئی طبی فیصلے کرنے کی ضرورت ہو تو ان والدین کے پاس وہ طبی فیصلے کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہوتا۔

’فرض کریں کہ بچہ بہت بیمار تھا اور اسے ہسپتال میں فوری علاج کی ضرورت تھی، اور ہسپتال سروگیٹ ماں کے ساتھ رابطہ نہیں کر سکا کیوں کہ وہ (جنم دینے کے بعد) بچے کی زندگی میں نہیں رہی، تو اس صورت میں مشکل کھڑی ہو جائے گی۔‘

’اس منظر نامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورت حال کس قدر غیر معقول ہے۔ یہ قوانین بچے کی صحت اور فلاح و بہبود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ واقعی ان (قوانین) کی توجہ کا مرکز بچہ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام عمل جس میں والدین بننے کے خواہشمند اپنے بچے کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، اگرچہ ایسا کرنے کا قانونی حق نہیں رکھتے، تمام متعلقہ لوگوں کے لیے ’واقعی خوفناک‘ ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بچے کو ’ہمیشہ ہمارے ذہن میں سب سے آگے ہونا چاہئے‘ بحیثیت ’اہم فریق جس کے بارے میں ہم سب کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔‘

 ایرنگٹن نے نوٹ کیا کہ والدین بننے کے خواہشمند اکثر خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ سروگیٹ ماں ’اپنے معاہدے سے انحراف کر سکتی ہے،‘ اور بچے کو اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ برطانوی قانون کے تحت وہ (سروگیٹ) ایسا کر سکتی ہے۔

’دراصل یہ قانون انہیں ایک طرح سے ایسا کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لیکن واقعی کوئی سِکے کے دوسرے رخ کے بارے میں غور نہیں کرتا، کہ تب کیا ہو گا اگر والدین بننے کے خواہشمند اپنا ذہن تبدیل کر لیتے ہیں، اور بچے کو ایسی سروگیٹ ماں کے پاس چھوڑ دیتے ہیں جو بچے کو پاس نہیں رکھنا چاہتی۔‘

اپنے شوہر سٹوآرٹ آرمفیلڈ کے ساتھ مل کر سروگیٹ ماں کی خدمات حاصل کر کے ماں بننے والے فرانسس ہاؤگن نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ قانون  میں موجود خامیاں کس طرح ان کے بچے کی صحت کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

35 سالہ ہاؤگن، جو اپنے خاوند سٹوآرٹ کے ساتھ ٹک ٹاک پر کافی مقبول ہیں، نے کہا: ’ہماری سروگیٹ جینیاتی اعتبار سے ہماری بچے کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہیں۔ ہم میں سے ایک بچے کا جینیاتی باپ ہے، لیکن ہم  سے کسی کا نام پیدائش کے سرٹیفکیٹ پر درج نہیں ہے۔‘

’بچے کی پیدائش کے بعد ہمیں والدین بننے سے متعلق حکمنامہ حاصل کرنے کے لیے 10 ماہ انتظار کرنا پڑا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ قانونی اعتبار سے فرسودہ طریقہ کار ہے اور اسے جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ہاؤگن نے وضاحت کی کہ والدین بننے کا حکمنامہ آنے تک ان کے بچے کا قانونی باپ سروگیٹ کا خاوند تھا۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہم ہسپتال جانا چاہتے تھے کیوں کہ ہمارے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور ڈاکٹر بچے کی ریڑھ کی ہڈی میں سوئی داخل کر کے نمونہ لینا چاہتے تھے کیوں کہ بچہ انفیکشن میں مبتلا تھا۔‘

’انہوں نے ہمیں تمام فارم دیے۔ ہم نے کہا کہ ہم ان پر دستخط نہیں کر سکتے کیوں کہ ہم (بچے کے) قانونی والدین نہیں ہیں۔ خوش قسمتی سے کوئی سنجیدہ بات (بیماری) نہیں نکلی، اسے محض کووڈ تھا، اور ریڑھ کی ہڈی میں ٹیکے کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔‘

’اگر انہیں ریڑھ کی ہڈی سے نمونے لینے کی ضرورت پڑتی تو اس صورت میں ہماری سروگیٹ تین گھنٹے کی مسافت پر رہتی تھیں، لہٰذا  میں نہیں جانتا کہ ایمرجنسی کی سورت میں کیا ہوتا یا وہ بیرون ملک ہوتیں کیوں کہ میرا خیال ہے کہ دستخط کرنے کے لیے آپ کو ذاتی طور پر موجود ہونا ہوتا ہے۔ یہ بڑی خوفناک صورت حال تھی۔‘

ہاؤگن، جو اپنے خاوند کے ساتھ مل کر ایک سوشل میڈیا کمپنی چلاتے ہیں، نے کہا کہ روزہ مرہ زندگی میں یہ بھول جانا آسان ہے کہ وہ بچے کے قانونی والدین نہیں، لیکن زندگی میں بڑے اور اہم مواقعوں پر اچانک آپ کو یاد کروایا جاتا ہے کہ قانون کی نظر میں آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ اور ویلز کے لا کمیشن اور سکاٹش لا کمیشن نے 2019 میں سروگیسی کے قوانین کی خامیاں دور کرنے پر زور دیا تھا۔ دیگر سفارشات کے ساتھ کمیشنز نے اس بات پر زور دیا کہ وہ نئے والدین جو بچے کی پیدائش پر اس کے معاملے میں قانونی ذمہ داریاں حاصل کرنے کے لیے سروگیسی کے عمل سے گزرتے ہیں، ان کے لیے والدین بننے کی اجازت کا موجودہ نظام ختم کر دیا جائے اور اگر ضروری ہو تو سروگیٹ ماں کو اعتراض کرنے کی اجازت دی جائے۔

ایرنگٹن کا کہنا تھا کہ انہیں یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ لا کمیشن نے اشد ضرورت والے ’سروگیسی اصلاحات بل‘ کو اگلے موسم بہار تک مؤخر کر دیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ تولید کے جدید طریقوں، رویوں اور خاندانی ڈھانچے سے سخت عدم مطابقت کی وجہ سے سروگیسی کے قوانین میں ’سالوں پہلے اصلاحات‘ کرنے کی ضرورت تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسے فوری طور پر دوبارہ متوازن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بائیلوجیکل والدین، والدین بننے کے خواہشمند افراد اور سب سے بڑھ  کر بچے کی فلاح کو برابری کی سطح پر تحفظ مل سکے۔

’لچک سے عاری موجودہ طریقہ کار اس مقصد کے لیے موزوں نہیں ہے، اور قانون کے تحت کسی ایک پارٹی کے معاہدے سے منحرف ہونے کی سورت میں والدین بننے کے خواہشمند افراد اور سروگیٹس دونوں خطرے میں پڑ سکتے ہیں، جس کے ممکنہ طور پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔‘

استدلال اپناتے ہوئے کہ سروگیسی سے متعلق قانون تقریباً 40 سال پرانا ہے، وکیل نے خبردار کیا کہ یہ ’افسوسناک‘ بات ہے کہ ’مشکل اور جذباتی‘ معاملہ ہونے کی وجہ سے سروگریسی اصلاحات بل کو مسلسل ٹالا جا رہا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت