دیپیکا پاڈوکون کی بکینی سے انڈیا میں غصے کی لہر

بی جے پی کے زیر اقتدار وسطی بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نرتم مشرا نے دیپیکا پاڈوکون اور شاہ رخ خان کے لباس کے رنگ پر اعتراض کیا اور اس کی ’درستگی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کے بعض رہنما اس لباس پر سخت برہم ہیں (یش راج فلمز)

بالی ووڈ اداکارہ دیپیکا پاڈوکون نے شاہ رخ خان کے ساتھ اپنی ایک نئی فلم کے گانے کے لیے نارنجی رنگ کی بکینی پہنی، جس کی وجہ سے انڈیا کے قدامت پسند غصے میں ہیں اور ایک انتہا پسند تنظیم احتجاج کر رہی ہے۔

ان کے غصے کی وجہ یہ ہے کہ ہندی فلم پٹھان کے گانے کا نام بے شرم رنگ ہے، جس کا ترجمہ ’بے شرم رنگ‘ بنتا ہے۔

بھگوا (زعفرانی) رنگ پیلا یا نارنجی رنگ، ہندو مذہب کے پیروکاروں میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔

علاقائی رہنما اور حکمراں دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی وزیر نرتم مشرا، جو ماضی میں اسی طرح کی مداخلت کرتے رہے ہیں، نے بدھ کو دونوں انڈین اداکاروں سے ناراضگی کا اظہار کیا۔

بی جے پی کے زیر اقتدار وسطی بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نرتم مشرا نے دیپیکا پاڈوکون اور شاہ رخ خان کے لباس کے رنگ پر اعتراض کیا اور اس کی ’درستگی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

نرتم مشرا نے کہا کہ ’گانے میں دیپیکا پاڈوکون کا لباس بادی النظر میں انتہائی قابل اعتراض ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’گانے کی عکس بندی واضح طور پر ایک آلودہ ذہنیت کی عکاس ہے۔۔۔ گانے کے مناظر اور ملبوسات کو درست کیا جانا چاہیے ورنہ یہ ایک سوال ہو گا کہ آیا مدھیہ پردیش میں فلم کی اجازت دی جانی چاہیے یا نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے تبصروں کے بعد جلد ہی ریاست میں مظاہرے ہوئے اور مطالبہ کیا گیا کہ آئندہ برس جنوری میں فلم کی نمائش پر پابندی لگائی جائے۔

’ویر شیواجی گروپ‘ کہلائی جانے والی دائیں بازو کی تنظیم کے ارکان اندور شہر جمع ہوئے اور دونوں اداکاروں کے پتلے جلائے۔ شیواجی 17ویں صدی کے ہندوستانی جنگجو بادشاہ تھے۔

وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کے ریاست اتر پردیش سے ایک اور رکن راجیش کیسروانی نے اس گانے پر تنقید کی ہے۔

انہوں نے گانے میں اس رنگ کے استعمال کو ’ہندو برادری کی توہین‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’فلم کے ایک گانے میں بھگوا رنگ کے ساتھ فحاشی کی جا رہی تھی اور یہ ہندو برادری اور سناتن (ہندوؤں میں ہندو مذہب کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح) ثقافت کی توہین ہے۔ لہذا ہم نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘

انڈین فلموں اور اداکاروں کو ماضی میں بھی ہندو مذہب کی علامات پر بی جے پی کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس سے قبل جولائی میں ٹورنٹو کے ایک عجائب گھر نے ایسا مواد چلانے پر معافی مانگی جس میں نے ایک انڈین فلم ساز نے ہندو دیوی کالی کو سگریٹ پیتے ہوئے دکھایا تھا۔

نریندر مودی کی دائیں بازو کی حکومت پر ناقدین کا الزام ہے کہ اس نے اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی اور انڈیا میں مذہبی آزادی کو ختم کر دیا ہے۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا میں مذہبی اقلیتوں کو 2021 کے دوران دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی