کاش بے نظیر کا مسکراتا چہرہ قریب سے نہ دیکھتا

کام ختم ہونے پر جب رات دیر گئے ایک دوست سے لفٹ لے کر گھر پہنچا تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ہم بہت کچھ کھو بیٹھے ہیں۔

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

27 دسمبر 2007، جمعرات کے دن کا آغاز تو میرے لیے ایک معمول کے دن کے طور پر ہوا لیکن اس روز پیش آنے والے ایک غیر معمولی واقعے نے ذہن پر ایسے نقش چھوڑے جو گزرتے وقت کے ساتھ دھندلا تو رہے ہیں لیکن شاید کبھی مٹ نہ سکیں۔

عام دنوں کی طرح دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ملک کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی اسلام آباد کے دورے پر آئے افغانستان کے اس وقت کے صدر حامد کرزئی سے ملاقات طے ہے اور پھر کوریج کے لیے وفاقی دارالحکومت کے اس ہوٹل پہنچ گیا جہاں افغان صدر ٹھہرے ہوئے تھے۔

میرے پہنچنے سے پہلے ہی ہوٹل کی ایک بالائی منزل جہاں کرزئی ٹھہرے ہوئے تھے، دونوں رہنماؤں کی ملاقات شروع ہو چکی تھی اور میں بھی وہاں موجود دیگر صحافیوں کی طرح انتظار کرنے لگا۔

کچھ دیر کے بعد بے نظیر اپنی پارٹی کے دو سینیئر رہنماؤں امین فہیم ، انور بیگ اور سیکورٹی اہلکاروں کے ہمراہ ہوٹل کی لابی میں پہنچیں جہاں میڈیا ان کا منتظر تھا، خاتون رہنما نے میڈیا سے مختصر گفتگو کی اور پھر تیز قدموں کے ساتھ اپنی گاڑی کی جانب بڑھیں۔

 میں نے ان سے سیاسی صورت حال اور کچھ روز بعد طے انتخابات کے بارے میں چند منٹ کے لیے الگ سے بات کرنا چاہی لیکن انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پھر کسی دن اور سیاہ رنگ کی کار میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گئیں، مجھے معلوم نہ تھا کہ اب دوبارہ ان سے بات کرنے کا موقع کبھی نہ مل پائے گا۔

اسی دن سہ پہر کو انتخابی مہم کے سلسلے میں بے نظیر بھٹو نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب بھی کرنا تھا میری ڈیوٹی میں پہلے یہ شامل نہیں تھا لیکن نجانے مجھے کیا کیا دیکھنا تھا اور پھر میں لیاقت باغ کی طرف چلا گیا۔

گاڑی راولپنڈی چاندنی چوک کے علاقے کے قریب کھڑی کی کیوں کہ ڈر تھا کہ آگے جا کر ٹریفک میں پھنس جاؤں گا اور واپسی میں بہت دیر ہو جائے گی۔

جلسہ گاہ پیپلز پارٹی کے جیالوں سے بھرا ہوا تھا، بے نظیر بھٹو کو نیلے لباس اور سفید دوپٹہ اوڑھے دور ہی سے دیکھا اور ان کے گلے میں پھولوں کا ایک ہار تھا جو لیاقت باغ پہنچنے پر انھیں پہنایا گیا۔

 پرجوش تقاریر ہوئیں اور بے نظیر بھٹو کی تقریر کے چند آخری جملوں میں سے ایک جملہ مجھے اب بھی یاد ہے ’اس ملک کی عزت ہماری عزت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جلسہ پرامن طور پر ختم ہو گیا بے نظیر بھی چلی گئیں باقی لوگ بھی وہاں سے جانا شروع ہو گئے مجھے بھی لگا کہ آج کے دن کا میرا کام بھی ختم ہو گیا۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ بے نظیر نے کس راستے سے واپس جانا ہے اور یہ لگ رہا تھا کہ چند منٹوں میں وہ راولپنڈی سے نکل جائیں گی اور میں کچھ جاننے والوں کے ہمراہ جلسہ گاہ ہی کے باہر کچھ گپ شپ کر رہا تھا کہ معلوم ہوا دھماکا ہوا ہے اور پھر بس بھگدڑ کی سی صورت حال تھی۔

کچھ منٹوں کے بعد پتہ چلا کہ دھماکے کا ہدف بے نظیر تھیں اور ابتدائی معلومات کے مطابق وہ شدید زخمی ہو گئی ہیں اور انھیں سینٹرل ہسپتال منتقل کر دیا گیا، پھر اگلی منزل سینٹرل ہسپتال تھی جہاں پہنچے پر کچھ دیر میں تصدیق کر دی گئی کہ بے نظیر اب اس جہاں میں نہیں رہیں۔

ان کی جماعت کے کارکنوں اور وہاں موجود مقامی اور بعض دیگر قائدین کی آنکھیں نم اور چہروں پر گہری افسردگی تھی۔

کچھ دیر بعد احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات ملیں اور پھر ہسپتال سے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا تاکہ شہر کی صورت حال کو دیکھا اور رپورٹ کیا جائے۔

جب تک اپنی گاڑی تک پہنچتا احتجاج کا دائرہ بڑھ چکا تھا بعض جگہ روڈ بند ہو چکی تھی اور پتھراؤ کی اطلاعات تھیں میری گاڑی کی سائیڈ کا ایک شیشہ بھی جزوی طور پر کسی نے توڑ دیا تھا۔

دفتر کے کیمرا مین کے ہمراہ جب گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد کی جانب سفر شروع کیا تو دو مقامات پر مشتعل لگ بھگ دو درجن افراد نے راستہ روکنے اور گاڑی توڑنے کی دھمکی دی لیکن منت سماجت کے بعد کچھ بات بنی اور راولپنڈی سے نکلنا ہوا۔

وفاقی دارالحکومت میں داخل ہوا تو پہلے کام ذہن میں آیا کہ پیٹرول بھروا لوں، اس شہر میں تو احتجاج شروع نہیں ہوئے لیکن مارکیٹیں اور پیٹرول پمپ بند ہو چکے تھے کچھ تھوڑا سا جو پیٹرول تھا وہ بھی تیل کی تلاش میں ختم ہو گیا۔

مشکل سے گاڑی دفتر تک پہنچی اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے کار پارکنگ میں جگہ بھی مل گئی۔

دفتر پہنچنے کے بعد ایک بار پھر بے نظیر کی زندگی سے جڑی خبر پر کام شروع  ہو گیا جس جس سے مل رہا تھا یا بات کر رہا تھا وہ بے نظیر کی زندگی سے متعلق اپنے تاثرات اور اپنی یادوں کا تذکرہ انتہائی جذباتی انداز میں کر رہا تھا۔

خیر کام ختم ہونے پر جب رات دیر گئے ایک دوست سے لفٹ لے کر گھر پہنچا تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ہم بہت کچھ کھو بیٹھے ہیں۔

اس وقت تک مجھے یہ مکمل آگاہی نہیں تھی کہ ملک بھر میں احتجاج کتنی شدت اختیار کر چکے ہیں اور ہمارے پاکستان کا کتنا نقصان ہو چکا ہے۔

گھر میں بھی بے نظیر کا ہی تذکرہ تھا اور اس دن سے جڑے واقعات کی باتیں ہو رہی تھیں۔

اس دن بھی اور اس کے بعد بھی کئی دن تک میرے ذہن میں ایک ہی بات رہی کہ کاش 27 دسمبر کی صبح بے نظیر کا مسکراتا چہرہ قریب سے نہ دیکھتا تو شاید اس دن کے اثرات مختلف ہوتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی