پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہیلتھ انفارمیشن اینڈ سروسز ڈیلوری یونٹ کے ایک افسر خالد شریف نے ملک میں کرونا وائرس کی نئی قسم ایکس بی بی کے کیسز کی غیر موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان سے نئے ویریئنٹ کے کیسز کی اطلاعات موجود نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں ویسے بھی (پرانے ویریئنٹ کے) مثبت کیسسز کی تعداد دو سے تین مریض روزانہ ہے، جن میں اب تک نئے ویریئنٹ کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر پلمنولوجی اورکرونا وائرس پر جنرل ہسپتال کے فوکل پرسن ڈاکٹر عرفان ملک کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کرونا ویکسین اور بوسٹرز مکمل کرنے والوں کو کووڈ وائرس کی یہ قسم (ایکس بی بی) بہت معمولی طور پر متاثر کر رہی ہے۔
ڈاکٹر عرفان ملک نے پاکستان میں کرونا وائرس کی روک تھام کو مزید بہتر بنانے کی غرض سے چہرے پر ماسک کے استعمال اور ہاتھوں کی صفائی کی ضرورت پر زور دیا۔
دو روز قبل ہی اس حوالے سے چئیرمین نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی لیفٹنینٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرونا کے نئے سب ویریئنٹ کا ابھی تک کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر ( این ای او سی ) کے خصوصی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرونا ویکسین لگوانے والوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، یہ معیار آئندہ بھی قائم رکھا جائے گا، اور عوام کرونا وائرس کے نئے ویریئنٹ سے متعلق کسی پراپیگنڈے اور افواہوں پر دھیان نہ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حالات کنٹرول میں ہیں، حکام نئے وائرس سے متعلق خطے کے باقی ممالک کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اور ضرورت پڑنے پر تمام اداروں کے تعاون سے کرونا کی نئی لہر سے بھی کامیابی سے نمٹا جائے گا۔
اس اجلاس میں قومی ادارہ صحت اور این سی او سی کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں اس وقت کرونا کے مثبت کیسز کی شرح 0.5 فیصد ہے، جبکہ ملک بھر میں صرف دو مریض وینٹی لیٹر پر ہیں، اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کرونا کے صرف 7 مریض ہسپتالوں میں داخل کئے گئے۔
اجلاس میں موجود بارڈر ہیلتھ سروسز کے حکام نے بتایا کہ نئے ویریئنٹ کے سبب ایئرپورٹس اور دیگر انٹری پوائنٹس پر نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔
کرونا کی نئی قسم ہے کیا؟
اسسٹنٹ پروفیسر پلمنولوجی اورکرونا وائرس پر جنرل ہسپتال کے فوکل پرسن ڈاکٹر عرفان ملک نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتا یا کہ 27 اکتوبر کو عالمی ادارہ صحت نے اس نئی قسم کو ویریئنٹ آف کنسرن (پریشانی کا باعث ویریئنٹ) کے طور پر پہچان لیا تھا۔ ’یہ دراصل اومیکرون کا ہی سب ویریئنٹ ہے، جسے ایکس بی بی کا نام دیا گیا ہے۔‘
ڈاکٹر عرفان کے بقول: ’اومیکرون ویریئنٹ کی منتقلی زیادہ تھی، لیکن اس کی افزائش کم تھی، اور نیا ویریئنٹ بھی اومیکرون کی طرح منتقل تیزی سے ہوتا ہے، لیکن اس کے زیادہ خطرناک ہونے کا امکان نہیں ہے۔‘
پنجاب کی کرونا ایڈوائزری کمیٹی کے رکن اور کنسلٹنٹ پلمنولوجی ڈاکٹرجاوید حیات نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کرونا کی نئی قسم دراصل اومیکرون کے سب ویریئنٹ بی ٹو اور بی 10 کے ملنے سے بنا جسے ایکس بی بی کہا جارہا ہے۔
ان کے مطابق اس ویریئنٹ کا پہلا کیس اگست میں امریکہ میں رپورٹ ہوا، جس کے بعد مختلف ممالک میں بھی کرونا کی نئی قسم رپورٹ ہونا شروع ہوئی اور کچھ ممالک میں تو اس وقت صرف اسی ویریئنٹ کے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔
’پاکستان میں اس حوالے سے کوئی ڈیٹا اکٹھا نہیں ہوا۔ البتہ انڈیا میں اس ویریئنٹ کے کیسسز رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن ان کی تعداد بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔‘
ایکس بی بی ویریئنٹ کی علامات
ڈاکٹر عرفان ملک کا کہنا تھا: ’سوشل میڈیا پر کرونا کی اس نئی قسم کے حوالے سے بہت سی غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں، جن میں علامات کا ظاہر نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔‘ انہوں نے واضح کیا کہ یہ بالکل غلط معلومات ہیں، اور نئے ویریئنٹ کی علامات وہی ہیں جو اومیکرون میں دیکھی گئی تھیں، جن میں بخار، کھانسی، سانس پھولنا اور تھکا وٹ شامل ہیں۔
احتیاطی تدابیر سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ویریئنٹ میں بھی احتیاطی تدابیر ویکسین لگوانا اور ویکسینیشن ہونے کی صورت میں بوسٹر ڈوزز لگوانا شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ویریئنٹ کے لیے بوسٹر ڈوز فائزر یا میڈرنا کی تجویز کی جاتی ہیں، اور ان دو ویکسینز کو بطور بوسٹر لگانے سے اس نئی قسم کے حوالے سے پیچیدگیاں کم دیکھنے میں آئی ہیں۔
ڈاکٹر جاوید حیات کا مزید کہنا تھا: ’جہاں تک اس کے پھیلاؤ کا تعلق ہے تو نئے ویریئنٹ کا پھیلاؤ پہلے ویریئنٹ سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے، مگر اس کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔ ’دیکھا بھی یہی گیا ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے داخلوں میں کوئی فرق نہیں پڑا کہیں بھی کرونا کی اس قسم کے ساتھ رپورٹ ہونے والے مریضوں کو ہسپتالوں میں داخل نہیں کیا جارہا۔ یہ بالکل عام زکام کی طرح کی بیماری ہے۔‘
پنجاب میں ایکس بی بی ویریئنٹ کے کیسسز
پنجاب کے ہیلتھ انفارمیشن اینڈ سروسز ڈیلیوری یونٹ کے ایک افسر خالد شریف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پاکستان بھر میں نئے ویریئنٹ کے کیسز کی غیر موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں کرونا سے نمٹنے کے لائحہ عمل پر بالکل پہلے کی طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ ’ہمارے پاس ہاسپٹلائزیشن کا سسٹم ا سی طرح قائم ہے، جبکہ 90 فیصد سے زیادہ ویکسینیشن کا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں ویسے بھی مثبت کیسسز کی تعداد دو سے تین روزانہ مریض ہے، جن میں اب تک نئے ویریئنٹ کی آبادی میں موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی۔
ایکس بی بی ویریئنٹ سے بچاؤ
اس حوالے سے ڈاکٹر عرفان ملک کا کہنا تھا: 'جن ممالک کا ڈیٹا ہمارے سامنے آرہا ہے وہاں ویکسینیشن کا عمل 80 سے 90 فیصد تک مکمل کرلیا گیا ہے، اور ایسے لوگ جن کی ویکسینیشن مکمل ہے اور انہیں بوسٹر ڈوز بھی لگ چکی ہے انہیں کووڈ کی یہ قسم بہت معمولی طور پر متاثر کر رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میں ذاتی طور پر لاک ڈاؤن کے خلاف ہوں البتہ ہمیں اب ماسک پہن لینے چاہیے اور ہاتھوں کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ ہمارے جن شہروں میں کرونا آیا ہے وہاں ویکسینیشن سے زیادہ ہماری اپنی ایمیونٹی نے دوبارہ وہ تباہی ہونے نہیں دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم نے خود بہت سے مریض دیکھے اور خوش قسمتی سے پاکستان میں کرونا وائرس صرف زیادہ آبادی والے شہروں مثلاً لاہور،گوجرانوالہ، فیصل آباد، کراچی، پشاور وغیرہ میں زیادہ پھیلا اور یہاں کی آبادی قدرتی طور پر ایمیون ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے ویکسینیشن کا اضافی فائدہ ہو رہا ہے۔
’اس لیے میرا مشورہ ہے کہ جن لوگوں نے ابھی تک ویکسینیشن نہیں کروائی وہ ضرور کروائیں اور ہائی رسک گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد مثلاً عمر رسیدہ، یا کمزور قوت مدافعت والے لوگ، لازماً اپنے دونوں بوسٹرز مکمل کریں۔‘
ڈاکٹر جاوید حیات نے ماسک پہننے، سماجی فاصلہ اور ہاتھ صاف رکھنے اور ویکسینیشن کروانے کی ضرورت پر زور دیا۔
’اب جو ویکسینیشن مارکیٹ میں آرہی ہے اس میں اومیکرون بھی شامل ہے اور چونکہ ایکس بی بی اسی وائرس کی ایک قسم ہے تو ویکسین اس کے لیے بھی کارگر ثابت ہوتی ہے۔‘
ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سلمان کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کرونا کے مریض ہسپتالوں میں آرہے ہیں لیکن اب ان کی تعداد زیادہ ہے نہ ان کی حالت ویسی ہے جیسے شروع شروع میں ہوا کرتی تھی۔ 'اب یہاں حالات چین جیسے نہیں ہیں۔‘
انہوں نے پاکستان میں نئے ویریئنٹ کی روک تھام کی خاطر سفری پابندیاں لگانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خصوصاً چین سے آںے والوں پر نظر رکھنے سے حالات کنٹرول میں رکھے جا سکتے ہیں۔
’سفری پابندیاں نہ لگائی گئیں اور نیا ویریئنٹ یہاں آ گیا تو دیکھنا ہو گا کہ آبادی کا ردعمل کیا ہو تا ہے، اگرچہ ابھی اس حوالے سے کچھ ٹھوس کہا نہیں جا سکتا لیکن احتیاطی تدابیر کا اٹھایا جانا ضروری ہے۔‘
(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)