بلوچستان: دیہی خواتین کا اسلام آباد سے آن لائن علاج

ایک غیر سرکاری ادارے نے بلوچستان کے 14 شہروں میں ٹیلی ہیلتھ سینٹرز قائم کیے ہیں، جہاں دوردراز علاقوں سے آنے والی خواتین کا علاج اسلام آباد میں بیٹھے ڈاکٹر کرتے ہیں۔

بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے پہاڑی گاؤں لوغی سے تعلق رکھنے والی عمر رسیدہ خاتون بی بی سارہ اپنی حاملہ بہو کو شہر لائی ہیں، جہاں کے طبی مرکز میں اسلام آباد سے ایک گائناکالوجسٹ ان کا آن لائن معائنہ کرتی ہیں۔

روایتی بشتون لباس میں ملبوس 50 سالہ بی بی سارہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے گاؤں کے کلینک میں ڈاکٹر نہیں ہوتے بلکہ غیر تربیت یافتہ دائیاں علاج کرتی ہیں، جو ان سے پیسے بھی لیتی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہاں ڈاکٹر بھی بڑی ہے اور پیسے بھی نہیں لیتے، علاج بھی بہت اچھا ہوتا ہے۔‘

بی بی سارہ ان ہزاروں خواتین میں سے ایک ہیں، جو علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتیں اور نہ ہی علاج کروانے کے لیے کسی متصل بڑے شہر کا سفر کر سکتی ہیں۔

 

بلوچستان میں دو ہزار کی آبادی کے لیے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ اس خلا کو پورا کرنے کے لیے نیم سرکاری ادارے پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹو (پی پی ایچ آئی) کی جانب سے ٹیلی ہیلتھ سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جہاں بچوں اور خواتین مریضوں کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ماہر ڈاکٹروں سے ویڈیو لنک کے ذریعے معائنہ اور علاج کرایا جاتا ہے۔

مرکز میں کام کرنے والی ایل ایچ وی زرمینہ کا کہنا تھا کہ یہاں ان کے پاس گائنی، سکن اور دیگر امراض کے مریض آتے ہیں۔

’ہم مریضوں کی ہسٹری لے کر ڈاکٹر کو بھیجتے ہیں، وہ ادویات تجویز کرتی ہیں، جس کے بعد فارمیسی سے مریضوں کو مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔‘

ڈسٹرکٹ سپورٹ مینیجر پی پی ایچ آئی سید امان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹیلی ہیلتھ سینٹر کا قیام گذشتہ سال جون میں عمل میں لایا گیا، جس کا بنیادی مقصد صوبے کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کو ان کی دہلیز پر طبی سہولیات فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’صوبے میں قائم 14 ٹیلی ہیلتھ سینٹرز میں گائناکالوجسٹ، ماہرامراض جلد، جنرل فزیشن اور دیگر ڈاکٹرز موجود ہیں۔‘

ضلع موسیٰ خیل

جنوبی پنجاب سے متصل ضلع موسیٰ خیل کا شمار بلوچستان کے ان پسماندہ و دور دراز اضلاع میں ہوتا ہے، جہاں کے لوگ صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی سمیت تمام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔

اس ضلع میں سڑک اور ٹرانسپورٹ کی سہولت کی عدم موجودگی کے باعث زچگی کے دوران اکثر خواتین دم توڑ جاتی ہیں، جبکہ نوزائیدہ بچوں میں غذائی قلت کی شرح بھی دیگر اضلاع سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کی بنیادی وجہ غربت اور کم شرح خواندگی بتائی جاتی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میٹرنل مورٹیلٹی سروے کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں ہر ایک لاکھ میں سے 298 خواتین زچگی کے دوران اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں جبکہ ملکی سطح پر شرح اموات کا یہ تناسب 40 فیصد ہے۔

ہیلتھ سروسز بلوچستان کے ریکارڈ کے مطابق صوبے میں پانچ سال کی عمر تک پہنچنے والے ایک ہزار میں سے 78 بچے اور ایک ہزار میں سے 66 شیرخوار جبکہ ہر ایک ہزار میں سے 34 نوزائیدہ بچے پیدائش کے دوران ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ایک لاکھ 70 ہزار کی آبادی پر مشتمل ضلع موسیٰ خیل کے لوگوں کو علاج معالجے یا تعلیم کے حصول کے لیے جنوبی پنجاب کے اضلاع تونسہ شریف، ڈیرہ غازی خان اور ملتان یا پھر کوئٹہ اور ژوب جانا پڑتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت