’اسلام آباد میں کراچی سے ڈھائی گنا زیادہ کاریں چوری ہوتی ہیں‘

اسلام آباد ایک چھوٹا سا شہر ہے جس سے گاڑی چوری ہونے کے دس منٹ کے اندر اندر اس کی حدود سے باہر نکل جاتی ہے اور اس کے بعد چور خود کو محفوظ تصور کر لیتا ہے۔

اسلام آباد میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کی جانب سے پکڑی گئی گاڑیاں (اسلام آباد پولیس)

ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے ایک دوست سے ملنے بلیو ایریا اسلام آباد گیا۔ وہاں ایک اور صاحب بھی بیٹھے تھے۔ چائے پی کر وہ چلے گئے اور چند لمحوں بعد ہی ہانپتے کانپتے آ گئے کہ میری گاڑی غائب ہے۔ ون فائیو پر کال کی گئی۔ لیکن گاڑی کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔

تیسرے دن کال آئی کہ ’گاڑی جی ٹی روڈ پر ٹیکسلا کی جانب جاتے ہوئے دیکھی گئی ہے، ہم نے بندہ پیچھے دوڑا دیا ہے۔‘ اس کے بعد کیا ہوا کچھ پتہ نہیں۔

اسلام آباد کو پاکستان کا محفوظ ترین شہر سمجھا جاتا ہے، بالخصوص جون 2016 میں سیف سٹی منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم اب قانون کی آنکھ سے بچ نہیں سکتا۔ مگر اس منصوبے کو چھ سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور جرائم کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ بلیو ایریا، اسلام آباد کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے جو ریڈ زون سے بھی جڑا ہوا ہے، یہاں تک آ کر اگر دیدہ دلیری سے وارداتیں ہو رہی ہیں تو باقی شہر کا کیا حال ہو گا؟

اسلام آباد میں گاڑی چوری کی وارداتیں کراچی سے ڈھائی گنا کیوں؟

اسلام آباد میں گذشتہ سال کے دوران 719 گاڑیاں چوری کی گئیں۔ جن میں سے سب سے زیادہ گاڑیاں تھانہ آئی نائن انڈسٹریل ایریا سے چوری ہوئیں جن کی تعداد 111 تھی۔ اس تھانے میں آئی نائن اور آئی ایٹ، ایچ نائن اور ایچ ایٹ کے علاقے شامل ہیں۔ جبکہ دوسرے نمبر پر تھانہ کوہسار رہا، جس کی حدود سے 77 گاڑیاں چوری ہوئیں جن میں ایف سکس، ایف سیون اور ای سیون جیسے پوش علاقے شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو اینٹی کار لفٹنگ سیل اسلام آباد کی جانب سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سب سے کم گاڑیاں نیلور اور پھلگراں تھانے کی حدود سے چوری ہوئیں جن کی تعداد ایک، ایک ہے۔ یہ دونوں تھانے دیہی علاقوں میں واقع ہیں۔ سب سے زیادہ جو گاڑیاں چوری کی گئیں ان میں سوزوکی مہران 281 عدد، ٹیوٹا کرولا 235 عدد اور سوزوکی بولان 45 عدد شامل تھیں۔

اب اس کا موازنہ کراچی سے کر کے دیکھیے۔ کراچی کی آبادی 2017  کی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 60 لاکھ ہے اور اسلام آباد کی آبادی 20 لاکھ ہے۔ مگر اسلام آباد میں گذشتہ سال 719 جبکہ کراچی میں 2131 گاڑیاں چوری ہوئیں۔

اس کو اگر اعداد و شمار کی چھلنی سے گزارا جائے تو کراچی میں 7508 شہریوں میں سے ایک کی گاڑی چوری ہوئے، مگر اسلام آباد میں 2781 لوگوں میں سے ایک کی گاڑی اٹھا لی گئی۔

گویا کراچی کے مقابلے پر اسلام آباد میں ڈھائی گنا سے زیادہ گاڑیاں چوری ہو رہی ہیں۔ اگر اسلام آباد کی آبادی اگر کراچی جتنی ہوتی تو یہاں چھ ہزار گاڑیاں سالانہ چوری ہو رہی ہوتیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کار چوری کے لیے واقعی ایک جنت بن چکا ہے۔

کار چوری کے ان ہولناک اعداد و شمار کی وجہ کیا ہے؟

اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ تو انتظامی ہے اسلام آباد ایک چھوٹا سے شہر ہے جس سے گاڑی چوری ہونے کے دس منٹ کے اندر اندر اس کی حدود سے باہر نکل جاتی ہے اور اس کے بعد چور خود کو محفوظ تصور کر لیتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل کے پاس نفری اور وسائل دونوں محدود ہیں۔

اسلام آباد پولیس کا اینٹی کار لفٹنگ سیل ایک سب انسپکٹر کی قیادت میں کام کر رہا ہے جس کے پاس کل نفری 45 ہے جبکہ یہاں موجود آسامیاں 105 ہیں۔ گویا نفری کی تعداد مطلوبہ تعداد کے نصف سے بھی کم ہے اور اس دوران شہر کی آبادی بھی دوگنا ہو چکی ہے۔

دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عدالتی نظام چوروں کو سپورٹ کرتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کار چوروں، کار خریدنے اور بیچنے والوں کو مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ یہ عادی چور ہیں جو پکڑے جاتے ہیں اور جلد ہی ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور اگلے دن ہی دوبارہ وارداتوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔

زیادہ تر کار چوروں کا تعلق خیبر پختونخوا کے اضلاع چارسدہ، مردان، پشاور، لنڈی کوتل اور درہ آدم خیل کے علاقوں سے ہے۔ یہ اسلام آباد سے 40 لاکھ کی گاڑی چوری کرتے اور جا کر چار لاکھ کی بیچ دیتے ہیں۔ بعض کیسوں میں ان چوروں کی پشت پناہی وہاں کی سیاسی شخصیات بھی کر رہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے پولیس کے لیے کارروائی کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔

یہی سیاسی شخصیات بیچ میں مڈل مین بن کر مالکان سے رابطہ کرواتی ہیں اور اپنا کمیشن وصول کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چوری شدہ گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بھی بک جاتے ہیں اور یہ ٹمپرڈ کر کے بوگس کاغذات کے ساتھ دوبارہ انہی سڑکوں پر چل رہی ہوتی ہیں۔

اینٹی کار لفٹنگ سیل کے انچارج رانا اشرف نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گاڑی جب بھی چوری ہوتی ہے اس کی بروقت اطلاع ہمیں نہیں ملتی بلکہ جب اطلاع ملتی ہے تو گاڑی قبائلی علاقے میں پہنچ چکی ہوتی ہے۔ یعنی چور ریکی کرتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ ا س کا مالک کم از کم کتنی دیر میں واپس آئے گا۔ دوسرا لوگ گاڑی کی سیفٹی کے لیے لاک نہیں لگاتے۔ گاڑیوں کا اپنا سیفٹی سسٹم قابل اعتبار نہیں ہے۔ مالکان اگر ون فائیو والے لاک لگائیں تو بچت ہو جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہ بتایا کہ ’ہم نے سینکڑوں کار چور پکڑے ہیں اور ان سے مسروقہ گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں پکڑی ہیں لیکن جب تک وہ مارکیٹیں موجود ہیں جہاں چوری شدہ گاڑیاں بک رہی ہیں یا پھر ان کے جعلی کاغذات بن رہے ہیں، یہ سلسلہ بند نہیں ہو سکتا۔‘

سیف سٹی منصوبہ ہے کیا؟

وفاقی حکومت نے 15 ارب روپے سے زائد کی لاگت سے جون 2016 میں سیف سٹی منصوبہ مکمل کیا جس میں 1950 کیمروں اور 130 ایل ای ڈی سکرینوں کی مدد سے شہر کو مانیٹر کیا جانا تھا۔

یہ سارا سسٹم جس سافٹ ویئر سے منسلک ہے اسے 25 کروڑ میں خریدا گیا تھا۔ یہ کیمرے 32 میگا پکسل کے ہیں جو فور جی کے ذریعے اپنا ڈیٹا مرکزی کنٹرول سینٹر میں منتقل کر رہے ہیں۔

ان کیمروں کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ 30 میٹر دور سے کسی بھی چہرے کی شناخت کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیف سٹی میں 191 مقامات پر ایسا سسٹم بھی نصب ہے جو گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پڑھ کر اسے سسٹم سے چیک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے اے این آر یا آٹو میٹک نمبر پلیٹ ریڈر کہا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اسلام آباد میں جرائم میں کمی نہیں دیکھی گئی۔

بلکہ اسلام آباد پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد میں 2021 میں جرائم 2020 کے مقابلے میں پانچ گنا بڑھ گئے جبکہ 2022 میں ان میں مزید 26 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ یا تو سیف سٹی منصوبہ ٹھیک نہیں یا اسے درست طریقے سے چلایا نہیں جا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی جگہ واردات ہوتی ہے اور متعلقہ کیمرا چیک کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کیمرہ خراب ہے۔ اس ذریعے نے کہا کہ پورا اسلام آباد ویسے بھی ان کیمروں سے کور نہیں ہوتا بلکہ صرف تیس سے چالیس فیصد علاقے پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔

عدالتی نظام میں مسئلہ کیا ہے؟

کار چوری کے حوالے سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 392 کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔ اس کے تحت چوری ثابت ہونے پر کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال قید ہو سکتی ہے اور ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔

اس کی ذیلی دفعہ یہ بھی کہتی ہے کہ اگر یہ جرم شاہراہ عام پرکیا جائے تو 14 سال بھی سزا ہو سکتی ہے۔ تاہم میاں ارشد ایڈووکیٹ جو سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور ایسے ہی ایک کیس میں بطور وکیل پیش ہو رہے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کار چوروں کو اس لیے سزا نہیں ملتی کیونکہ عدالتوں پر بہت زیادہ دباؤ ہے اور جب پولیس کی جانب سے شواہد وقت پر فراہم نہیں کیے جاتے تو اس کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے اور ا س کی ضمانت ہو جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ عدالت مدعی کو بلائے، فرانزک جس مجسٹریٹ نے کیا اس سے بیانات لے، لیکن جب ایک بار وہ بلانے پر نہیں آتے تو اگلی پیشی پر عدالت ضمانت دے دیتی ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ مدعی پیسے لے کر صلح کر لیتا ہے اور عدالت کیس خارج کر دیتی ہے۔ پولیس بھی چالان میں ایسے خلا جان بوجھ کر رکھتی ہے جس کا فائدہ ملزم کو ہی ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جب کار چوروں کو سزا ہی نہیں ملتی تو وہ شیر بن جاتے ہیں اور ضمانت پر آتے ہی اگلے روز پھر کار چوری میں شریک ہو جاتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان