کیا بابر اعظم کی کپتانی خطرے میں ہے؟

اگر بورڈ نے بابر اعظم کو ہٹا کر کسی اور کو کپتان بنایا تو اس سے ٹیم میں وہی حالات پیدا ہوجائیں گے جو مصباح الحق کی کپتانی سے قبل تھے۔

بابر اعظم نے آخری 10 ٹیسٹ میچوں میں چار سینچریاں اور سات نصف سینچریاں بنائی ہیں (اے ایف پی)

پاکستان ٹیم کے تینوں فارمیٹس کے کپتان بابر اعظم کے خلاف تنقید میں تیزی آتی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہر دوسرے دن ایک ٹرینڈ بن جاتا ہے جو کبھی بابر کو کپتانی سے ہٹانے اور کبھی برقرار رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا کے علاوہ کرکٹ تبصرہ نگار اور سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی آرا بھی اس معاملے پر تقسیم ہیں۔

کچھ سابق کرکٹرز کا خیال ہے کہ بابر اعظم کی بیٹنگ کے کارنامے ان کی کپتانی کے بوجھ میں دبتے جا رہے ہیں اور جتنا ان کی بیٹنگ کوسراہا جانا چاہیے اس سے زیادہ کپتانی پر تنقید ہو رہی ہے اس لیے انھیں کم ازکم ٹیسٹ میچوں کی کپتانی چھوڑ دینی چاہیے۔ 

کچھ کا تو خیال ہے کہ بابر کسی بھی فارمیٹ کی کپتانی کے قابل نہیں۔

اس کے برعکس کچھ سابق کپتانوں کے خیال میں بابر اعظم ایک اچھے قائد ہیں اور ٹیم کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

وہ نوجوان کھلاڑیوں کو کھلانے کے ساتھ سکھاتے بھی ہیں۔

سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی بڑی تعداد اس حق میں ہے کہ بابر کو تینوں فارمیٹس میں کپتان برقرار رکھا جائے کیونکہ وہ واحد کھلاڑی ہیں جو قیادت کر سکتے ہیں۔

ایک سابق کپتان تو بابر کو تین سال تک مستقل کپتان بنانے کی بات کرتے ہیں۔

بابر اعظم کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز کے پیچھے مبینہ طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چند عہدے دار بتائے جاتے ہیں جو بابر اعظم کے چند کھلاڑیوں کے ساتھ گروپ بننے پر سخت برہم ہیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں اس پلئیر پاور کو توڑنا چاہتے ہیں۔ چند دنوں قبل سوشل میڈیا پر ایک ٹریند چلا تھا # سوچنا بھی نہیں۔   

اس پر عام صارفین کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کے چند سینیئر اور اہم کھلاڑیوں نے بھی ٹوئٹس کی تھیں، جن کے جواب میں موجودہ مینجمنٹ کمیٹی کے ایک رکن شکیل شیخ نے سخت ردعمل دیا تھا۔

بابر اعظم کے خلاف سرگرم گروپ کے سرغنہ ایک فرنچائز سے منسلک صحافی بتائے جاتے ہیں جو ہر روز بابر کو ایک ناکام کپتان اور غیر موثر بلے باز قرار دیتے ہیں۔

ان کی مسلسل مخالفت میں میڈیا بھی کراچی اور لاہور میں تقسیم ہو گیا ہے۔

کراچی کے صحافیوں کا ایک گروپ بابر کے خلاف اور سرفراز کی حمایت میں ٹرینڈ چلا رہا ہے جبکہ لاہور کے کچھ صحافی بابر کی حمایت میں ٹرینڈ چلا رہے ہیں۔

کیا بابر کی آڑ میں رمیز راجہ سے دشمنی ہے؟

بابر اعظم کے خلاف بیانات پر تاثر پایا جاتا ہے کہ دراصل بابر کے مداح سابق چئیرمین رمیز راجہ کو سبق سکھانے کی کوشش کی جارہی ہے جو اپنی ہر ویڈیو میں بابر اعظم کو سراہتے ہیں اور انہیں کپتانی سے ہٹانے کی کسی بھی کوشش کو موجودہ بورڈ اور چئیرمین نجم سیٹھی کی کرکٹ تباہ کرنے کی سازش  قرار دیتے ہیں۔

بورڈ کے عہدے داروں کو شک ہے کہ بابر اور دوسرے سینیئرکھلاڑی ابھی بھی رمیز راجہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کی ہدایات پر چلتے ہیں۔

نائب کپتانی کا مسئلہ

بابر اور موجودہ بورڈ کے درمیان اختلافات کا سلسلہ شان مسعود کو نائب کپتان بنانے پر شروع ہوا جب بابر اعظم سے پوچھے بغیر ایک ایسے کھلاڑی کو نائب کپتان مقرر کیا گیا جس نے آخری ایک روزہ میچ چار سال قبل کھیلا تھا۔

مبینہ طور پر انہیں موجودہ سکواڈ میں بھی زبردستی شامل کیا گیا۔

بابر اعظم نے اس فیصلے پر اپنی برہمی کا اظہار کیا تو انھیں سخت جواب دیا گیا کہ آپ کو کپتانی سے ہٹا دیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ایک روزہ میچ میں کوچ ثقلین مشتاق پر مبینہ طور پر بورڈ نے زور ڈالا کہ شان کھیلیں گے لیکن دو گھنٹہ تک بحث کے باوجود بابر راضی نہیں ہوئے اور وہ فخر زمان کو کھلا کر ہی باز آئے۔

بابر نے دوسرے میچ میں بھی شان کو کھلانے سے  انکار کر دیا تھا۔ بورڈ عہدے دار اس جواب پر سخت ناراض تھے۔

دوسری طرف بابر بھی اپنے موقف پر قائم تھے جس سے افواہوں کا بازار گرم تھا۔

کچھ ایسی خبریں آرہی تھیں کہ بابر موجودہ سیریز سے لاتعلق ہو جائیں گے۔

تاہم بات بگڑتے دیکھ کر چیئرمین نجم سیٹھی نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے بابر کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی مرضی کی ٹیم منتخب کریں۔

شنید تو یہ ہے کہ پانچ سینیئر کھلاڑیوں نے بھی بابر کے ساتھ قومی ٹیم چھوڑنے کا عندیہ دیا تھا۔

بابر اعظم پر برہمی کی ایک وجہ حکومت وقت بھی ہے جس نے سابق وزیر اعظم کی صحت کے تمناؤں پر بابر اعظم کے ٹویٹ پر سخت ناگواری کا اظہار کیا اور اسے اپنے اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔

اس سے پہلے محمد حفیظ کو بھی حکومتی وزیر نے عمران خان کی حمایت پر لتاڑا تھا۔

کیا بابر کو ہٹا دیا جائے گا؟

ذرائع کے مطابق بورڈ نے بابر اعظم کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور سرفراز احمد یا محمد رضوان میں سے کسی کو کپتان بنایا جائے گا۔

اس کی وجہ بابر کی بیٹنگ کو کپتانی سے متاثر ہونا قرار دیا جائے گا۔ تاہم امکان ہے یہ فیصلہ بہت جلد واپس لے لیا جائے گا۔

کیا بابر اعظم کی بیٹنگ متاثر ہو رہی ہے؟

اگر بابر کی کپتانی میں ٹیم کو دیکھا جائے تو سوائے ان کے کسی کی بھی کارکردگی مستقل نظر نہیں آتی۔

بیٹنگ ہو یا بولنگ، کھلاڑی اتنی ہی کارکردگی دکھاتے ہیں جو انھیں اگلے میچ میں جگہ دلا سکے۔

اس کے برعکس بابر اعظم کی کارکردگی میں کافی حد تک تسلسل ہے۔

بابر اپنے آخری 10 ایک روزہ میچوں میں تین سینچریاں اور چھ نصف سینچریاں بنا چکے ہیں۔ ان 10 میں سے نو میچ پاکستان جیتا ہے۔

ٹیسٹ میچوں میں بابر کی آخری 10 میچوں چار سینچریاں اور سات نصف سینچریاں بنی ہیں، جن میں ان کی 196 رنز کی کراچی ٹیسٹ کی اننگ بھی شامل ہے۔

ٹی ٹوئنٹی میں اگرچہ وہ صرف دو نصف سینچریاں بنا سکے ہیں لیکن انھوں کئی عمدہ اننگز بھی کھیلی ہیں۔

 مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی بیٹنگ کپتانی کی وجہ سے متاثر نظر نہیں آتی لیکن اس کے باوجود یہ ایک وجہ بیان کی جاتی ہے۔

ان کی کپتانی کو دیکھا جائے تو وہ مسلسل پانچ ٹیسٹ میچ ہار چکے ہیں جس سے ان پر بہت تنقید ہو رہی ہے لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم اس معیار کی کارکردگی نہیں دکھا سکی جو جیت کے قریب پہنچ کر جیت سکے۔ 

بابر اعظم خود بھی ایسے موقعوں پر جلد آؤٹ ہو گئے جب ان کی ضرورت تھی۔

کچھ ناقدین بابر کو خود غرض بلے باز کہتے ہیں جو صرف اعداد وشمار کے لیے کھیلتے ہیں۔ ان کے بقول بابر کو ٹیم کی جیت سے غرض نہیں بس اپنی بڑی اننگز درکار ہوتی ہے۔

تاہم یہ الزام اس لیے کمزور ہے کہ بابر کے علاوہ کوئی اور ان جیسا بلے باز بھی نہیں جو جارحانہ رنگ اپنا سکے ۔

پاکستان کو اس سال اکتوبر میں ورلڈ کپ تک صرف ایک ٹیسٹ سیریز سری لنکا کے خلاف کھیلنا ہے۔

اگر ایشیا کپ نہ ہوسکا تو ایک روزہ میچوں کا بھی کوئی موقع نہیں ہوگا حالانکہ افغانستان کے ساتھ تین میچ کی سیریز طے ہے تاہم ابھی تک اس کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔

پاکستان البتہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے پانچ میچ نیوزی لینڈ اور تین ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گا۔ ویسٹ انڈیز کا دورہ بھی حتمی نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا بورڈ بابر اعظم کو کپتانی سے یکسر ہٹا دے گا یا صرف ٹیسٹ کی کپتانی سے؟

یہ ایک سوال ہے لیکن اکتوبر میں انڈیا میں میگا ایونٹ سے قبل کپتانی کے بارے میں خدشات اور افواہوں سے ٹیم کا مورال متاثر ہو سکتا ہے۔

یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ بابر اعظم کے علاوہ کسی بھی کھلاڑی کی کارکردگی میں تسلسل نہیں اور کپتانی کے سب سے بڑے امیدوار سرفراز احمد خود جدوجہد میں مصروف ہیں اور محمد رضوان کی اپنی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے۔

بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹا کر بورڈ پلئیر پاور کو توڑنا چاہتا ہے اور ٹیم سیلکشن سے کپتانی تک ہر ڈومین اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے جیسے 70 اور 80 کی دہائی میں ہوتا تھا۔

تاہم سابق کپتان عمران خان نے آ کر بورڈ کو ٹیم سے لاتعلق کردیا تھا اور ایک مضبوط ترین کپتان کا نظام قائم کیا۔

ایک تاثر ہے کہ بابر بھی ایسی ہی آرزو رکھتے ہیں اور انھیں کسی کا نہیں تو رمیز راجہ کی حمایت ضرور حاصل ہے۔

لیکن تمام اختلافات کے باوجود اگر بورڈ نے بابر اعظم کو ہٹا کر کسی اور کو کپتان بنایا تو اس سے ٹیم میں وہی حالات پیدا ہوجائیں گے جو مصباح الحق کی کپتانی سے قبل تھے۔

دیکھنا یہ ہے کہ کیا بورڈ اپنی انا کے مطابق فیصلے کرتا ہے یا پھر پاکستان کرکٹ کے مفاد میں۔

نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ