عربوں نے کیسے سری لنکن موتیوں کی تجارت کو چمکایا؟

جب ابن بطوطہ شمالی سری لنکا پہنچے تو جافنا سلطنت کے حکمران نے ان کا استقبال ایسے موتیوں سے کیا، جو انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے۔

تین نومبر 2022 کی اس تصویر میں ابو ظبی میں ایک تاجر موتی کی جانچ کرتے ہوئے (اے ایف پی)

اس مشہور مراکشی سیاح کا جہاز ستمبر 1344 میں پٹلم پہنچا اور انہوں نے جزیرے پر چند دن گزارے۔ بادشاہ کو محظوظ کیا جو ان کے سفر میں دلچسپی رکھتے تھے اور آدم پہاڑ کی چوٹی پر گئے جس کا احترام مسلمان زائرین پہلے انسان اور نبی کے قدموں کے نشان کے مقام کے طور پر کرتے ہیں۔

ابن بطوطہ نے اس سفر کو اپنے ’سفر نامے‘ میں لکھا اور تفصیلی وضاحت کی، جس میں انہوں نے اپنی زیادہ تر توجہ موتی کی چٹانوں اور اس کی تلاش پر مرکوز کی، جوکہ جافنا کے بادشاہ کے خزانے کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ تھا۔

انہوں نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ انہیں جو جواہرات تحفے میں دیے گئے تھے وہ ’شاندار موتی، دنیا کے سب سے بڑے اور خوبصورت ترین موتی تھے۔‘

لیکن وہ اس جزیرے پر جانے والے پہلے عرب سیاح نہیں تھے۔

ابن بطوطہ سے صدیوں پہلے سری لنکا پہنچنے والے وہ لوگ تھے، جنہوں نے موتی کی ماہی گیری کو فروغ دیا اور جنہوں نے مولسک سے بنے اس قیمتی پتھر کو اٹھایا کر جزیرے کا سب سے قیمتی آبی وسائل بنایا۔

سری لنکا کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈیویلپمنٹ آفیسر عبدالرحیم جیسمل، جن کی تحقیق سری لنکا کے مسلمانوں کی تاریخ پر مرکوز ہے، کا اندازہ ہے کہ جزیرے پر پہلے عرب سیاح اسلام سے پہلے، تیسری صدی قبل مسیح کے آس پاس آئے تھے۔

اس وقت، جزیرے کے ساتھ تجارت مکمل طور پر عربوں کے ہاتھوں میں تھی جو بنیادی طور پر جزیرہ نما عرب اور میسوپوٹیمیا (عراقی خطے) کے کچھ حصوں سے آئے تھے۔

جیسمل کا کہنا ہے کہ ’وہ الائچی، دار چینی، لونگ اور سفید مرچ جیسے مصالحوں کی تلاش میں آئے تھے۔

’جب انہوں نے یہاں قیام کیا، تو انہیں معلوم ہوا کہ جزیرے کے سمندر کے کچھ حصے موتیوں سے بھرے ہوئے تھے۔۔ انہوں نے اپنے کاروبار کا رخ موتی کے لیے غوطہ خوری (پرل ڈائیونگ) کی طرف موڑ دیا۔‘

پرل ڈائیونگ ہزاروں برسوں سے رائج ہے اور خلیج عرب کی بہت سی برادریوں میں قدیم زمانے میں دولت کا اہم ذریعہ تھا۔

ان علاقوں کے مرد موتیوں کے موسم کے دوران سمندری مہمات پر مہینوں گزارتے تھے، جبکہ خاندان ساحل پر ان کا انتظار کرتے تھے اور ان کی حفاظت کے لیے رسومات ادا کرتے تھے۔

جب عرب تاجر سری لنکا پہنچے تو انہوں نے فوری طور پر اس کے موتیوں کی دولت کو سمجھ لیا اور جزیرے کے شمال مغربی ساحل کو کھوجنا شروع کیا۔

ابتدائی طور پر موتی زیادہ تر منار، چلاؤ اور کلپٹیا کے قصبوں سے دور خلیج منار میں سیپوں میں پائے جاتے تھے۔

قدیم روم کی اشرافیہ میں ان کی بہت قدر تھی۔ وہاں دوسری صدی عیسوی میں تاریخ دانوں نے لکھا تھا کہ کس طرح انہیں بحر ہند سے بحری جہازوں یا قافلوں کے ذریعے لایا جاتا تھا۔

صدیوں کے دوران جیسے جیسے صنعت کی اہمیت میں اضافہ اور توسیع ہوئی، غوطہ خوروں نے موتی سے مالا مال خلیج کے جنوب کے علاقوں کو بھی کھوجنا شروع کردیا۔

جیسمل نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’برووالا سے ہمبنٹوٹا تک انہیں نئی جگہیں ملیں، جو مغربی ساحل سے جنوب تک پھیلی ہوئی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ صنعت اتنی منافع بخش تھی کہ موتیوں کے بہت سے عرب تاجر سری لنکا میں آباد ہو گئے اور مقامی خواتین سے شادیاں کیں، جن میں سے زیادہ تر تامل برادریوں سے تعلق رکھتی تھیں، جو ان کے کاروبار سے وابستہ تھیں۔‘

اگرچہ مشرق وسطیٰ کے تاجروں کی قبل از اسلام موجودگی کے دستاویزی نمونوں کے بارے میں بہت کم علم ہے، لیکن اسلام کی آمد کے بعد سے ایسے ثبوت وافر ہیں، بالخصوص جب ثقافت اور مذہب میں عرب اثر و رسوخ آیا۔

جیسمل نے کہا: ’سری لنکا میں پہلی مسجد ان عربوں نے تعمیر کی تھی۔‘

920 عیسوی میں تعمیر ہونے والی برووالا کی ایک مسجد کا حوالہ یتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’ابرار مسجد عرب ثقافت کی یادگار ہے۔ یہ کافی حد تک سری لنکا کی سب سے پرانی مسجد سمجھی جاتی ہے۔‘

بعد ازاں یورپیوں کے مخطوطات سے پتہ چلتا ہے کہ 19 ویں صدی تک سمندر سے موتی کی سیپیاں جمع کرنا، ان کی پروسیسنگ اور تجارت پر عربوں اور تاملوں کا غلبہ تھا، جنہیں بہترین غوطہ خور سمجھا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک صدی تک موتیوں کی ماہی گیری پرتگالیوں کے کنٹرول میں رہی، جنہوں نے منار میں ساحلی برادریوں کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس عرصے کے دوران تقریباً 50 ہزار افراد اس صنعت میں کام کرتے تھے۔

جب نیدرلینڈ نے 17 ویں صدی کے وسط میں پرتگالیوں کو نکالا تو انہوں نے اسے دو لاکھ ملازمین تک بڑھا دیا۔

ایک صدی بعد جب ایک اور نوآبادیاتی طاقت، برطانیہ نے اقتدار سنبھالا تو اس کے راج میں موتی کی ماہی گیری میں مشکلات آنا شروع ہوگئی۔

جس پانی میں دو ہزار سال سے زیادہ عرصے تک دنیا میں قدرتی موتیوں کے سب سے وافر وسائل تھے، اس پانی کی سیپ کالونیاں ختم ہونے لگیں۔

انگریزوں کی جانب سے اس صنعت کی بحالی کے لیے متعدد ناکام تجربات کے بعد 1920 کی دہائی میں جاپانیوں کی جانب سے انسانی تیار کردہ موتی متعارف کرانے سے اس صنعت کو آخری دھچکا لگا۔

سری لنکا کی آزادی کے بعد موتیوں کا کچھ شکار جاری رہا، لیکن آج یہ تقریباً معدوم ہوچکا ہے۔

اگرچہ سری لنکا اب بھی زیورات تیار کرنے والا ایک مشہور ملک ہے، لیکن وہ قیمتی پتھر جو کبھی شہرت رکھتے تھے، اب مقبول نہیں۔

کولمبو میں منعقدہ سالانہ جی ایم اینڈ جیولری ٹریڈ شو کے چیف ایگزیکٹیو ریزان نذیر نے کہا کہ مقامی کاریگروں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے موتی شاید ہی کبھی مقامی ہوں۔

انہوں نے کہا: ’سری لنکا میں موتیوں کی ماہی گیری ایک دم توڑتی ہوئی صنعت ہے، وہ قیمتی پتھر ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ہم جاپان اور آسٹریلیا سے موتی لیتے ہیں۔‘

نوٹ: یہ رپورٹ پہلے عرب نیوز پر انگریزی میں چھپی اور اسے محمد رسول دین اور نٹالیا لیسکاوسکا نے لکھا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین