امریکہ: 2018 کی ٹویٹس پر ایلون مسک مقدمے میں پھنس گئے

ایلون مسک پر ٹیسلا کے شیئر ہولڈرز کی طرف سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے جن کا کہنا ہے کہ بزنس ٹائیکون نے اپنی ٹویٹس میں لاپرواہی سے کام لیا جس سے انہیں اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔

یہ السٹریٹڈ تصویر چار اکتوبر 2022 کو لی گئی تھی جس میں ایک فون کی سکرین پر ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ پس منظر میں ٹوئٹر کا پرندہ واضح ہے (اے ایف پی)

دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک مانے جانے والے ایلون مسک سال 2018 میں کی جانے والی اپنی ٹویٹس پر مشکل میں پھنس گئے۔

انہیں اپنی ان دو ٹویٹس پر قانونی کارروائی کا سامنا ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ اپنی کار ساز کمپنی ٹیسلا کو شاید پرائیویٹ کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو جیوری کے انتخاب کے لیے امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک کمرہ عدالت میں عدالتی کارروئی کا آغاز ہوا۔

مسک کی مذکورہ ٹویٹس کے بعد ٹیسلا کے حصص کی قیمتیں ایک رولر کوسٹر کی طرح اتار چڑھاؤ کا شکار ہو گئی تھیں۔

ایلون مسک پر ٹیسلا کے شیئر ہولڈرز کی طرف سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے جن کا کہنا ہے کہ بزنس ٹائیکون نے اپنی ٹویٹس میں لاپرواہی سے کام لیا جس سے انہیں اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔

مقدمے کی سماعت تین ہفتوں تک جاری رہنے کی توقع ہے اور مسک کو بھی ممکنہ طور پر گواہی کے لیے بلایا جائے گا۔

ٹیسلا کے حصص کی قیمت گذشتہ سال کے دوران گر گئی تھی کیونکہ سرمایہ کار مسک کی جانب سے ٹوئٹر کی خریداری پر پریشان ہیں جن کا خیال ہے کہ ارب پتی مسک اپنی زیادہ تر توجہ ، مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم پر مرکوز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

شیئر ہولڈرز نے 2018 میں مسک کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جن کا الزام تھا کہ ان کی ایک ٹویٹ کی وجہ انہیں اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

مسک نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’عوامی طور پر تجارت کرنے والوں کے لیے الیکٹرک آٹومیکر خریدنے کے منصوبے میں سرمایہ کاری محفوظ ہے۔‘

ایک دوسری ٹویٹ میں مسک نے مزید کہا تھا کہ ’سرمایہ کاروں کی حمایت کی تصدیق ہو گئی ہے اور یہ کہ معاہدہ صرف شیئر ہولڈرز کے ووٹ کا منتظر ہے۔‘

منگل کی کارروائی کے دوران امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج ایڈورڈ چین نے ممکنہ ججوں کے انتخاب کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا: ’مدعی کا الزام ہے کہ یہ ٹویٹس ظاہری طور پر جھوٹی تھیں لیکن اس سے مصنوعی طور پر ٹیسلا سٹاک اور دیگر سکیورٹیز کی قیمتوں کو متاثر کیا گیا تھا۔‘

مسک کی 2018 میں کی گئی مختصر ٹویٹس کی امریکی حکام پہلے ہی جانچ کر چکے ہیں۔

امریکہ میں سٹاک مارکیٹ کے ریگولیٹر ادارے ’سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن‘ نے حکم دیا کہ ’مسک ٹیسلا کے بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے دستبردار ہو جائیں اور کمپنی اور مسک دونوں دو کروڑ ڈالر کا جرمانہ ادا کریں۔‘

مسک نے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ وہ ان ٹوئٹس سے دھوکہ دے رہے تھے جب کہ توقع ہے کہ ان کے وکلا گواہوں سے اُس وقت ان کے سرمایہ کاری کے منصوبوں کی تصدیق کریں گے، جن میں مسک کے دوست اور ساتھی ارب پتی شخصیت لیری ایلی سن کی گواہی بھی شامل ہے۔

ججوں کا انتخاب اس وقت شروع ہوا جب ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج ایڈورڈ چین نے گذشتہ ہفتے مسک کی طرف سے کارروائی کو جنوبی ریاست ٹیکسس منتقل کرنے کی درخواست کو رد کر دیا تھا۔

 مسک نے حال ہی میں ٹیسلا کا ہیڈکوارٹر ٹیکسس منتقل کیا تھا اس لیے ان کی خواہش تھی کہ یہ مقدمہ بھی اسی ریاست میں چلے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسک کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے دلیل دی کہ انہیں سان فرانسسکو میں منصفانہ مقدمے کی سماعت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ ٹویٹر کا ہیڈکواٹر کیلی فورنیا کے اسی شہر میں واقع ہے۔

منگل کو عدالت نے ایک سوال نامے پر درجنوں ممکنہ ججوں کے جوابات کا جائزہ لیا جس میں مسک کے بارے میں ان کی رائے بھی شامل تھی۔

ایک ممکنہ جج نے تسلیم کیا کہ وہ شاید غیر جانب دار نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں ارب پتی ہونے کا پہلو بھی شامل ہے۔ میں ایسے لوگوں کا بڑا پرستار نہیں ہوں۔‘

مسک کے وکیل الیکس سپیرو نے جیوری کے ممکنہ منتخب امیدواروں سے کہا کہ وہ ’کھلے ذہن‘ کے ساتھ چلیں، چاہے وہ سب سے پہلے الزام لگانے والوں کی بات سنیں۔

انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ وہ ‘ٹوئٹر پر حالیہ واقعات‘ کو سامنے نہ لائے۔

اکتوبر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم خریدنے کے بعد مسک نے کمپنی کے ساڑھے سات ہزار ملازمین میں سے نصف سے زیادہ کو برطرف کر دیا تھا اور اعتدال پسندی کی ان پالیسیوں کو ختم کر دیا تھا جس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کو بلاک کرنا بھی شامل ہے۔

ٹوئٹر کے سی ای او کے وکلا نے ایک سماعت میں دلیل دی کہ: ’گذشتہ کئی مہینوں سے مقامی میڈیا نے ہمارے موکل مسک کے بارے میں متعصبانہ اور منفی کہانیوں سے اس ڈسٹرکٹ کو بھر دیا ہے جس نے جیوری پول میں انتہائی جانب دارانہ تعصبات کو فروغ دیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ