دوسری عالمی جنگ کے ہندوستانی جنگجو کی محبت بھری داستان

دوسری عالمی جنگ میں لڑنے والے غیرمنقسم انڈیا کے فوجی افسروں اور جرنیلوں پر تو بہت لکھا گیا ہے لیکن ایک عام ہندوستانی سپاہی کی کہانی کم ہی سامنے آئی ہے۔

پاکستان کا لالی ووڈ کہاں اس قسم کی کہانی کو گھاس ڈالتا ہے لیکن یہ سٹوری یقینا کسی ہالی ووڈ یا بالی ووڈ فلم کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے برٹش انڈین آرمی کے سپاہی کی زندگی کی جو انہوں نے اپنی موت سے ایک سال قبل اپنی اہلیہ کو بیان کی تھی۔

راؤ خلافت نامی سپاہی کی یہ کہانی دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان سے شروع ہو کر لیبیا کے صحراؤں میں اذیت ناک قید سے لے کر موت کو دھوکہ دینے، اٹلی میں فرار ہوتے ہوئے محبت کے شکار ہونے، برما میں جاپانیوں سے لڑنے اور جاوا کی لڑائی میں زخمی ہونے جیسے دلچسپ واقعات پر مبنی ہے۔

دوسری عالمی جنگ میں لڑنے والے غیرمنقسم انڈیا کے فوجی افسروں اور جنریلوں پر تو بہت لکھا گیا ہے لیکن ایک عام ہندوستانی سپاہی کی کہانی کم ہی سامنے آئی ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی اور بھتیجے واصف رشید نے اس کہانے کے ادھر ادھر بکھرے ہوئے ابواب کو اکٹھا کر کے اسے انگریزی ترجمے کی صورت میں شائع کیا ہے۔

اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں گذشتہ شب ایشین سٹڈی گروپ میں واصف رشید نے ان وسیع یادداشتوں کو سفارتی اور دیگر افراد کے سامنے پڑھ کر سنایا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے مرحوم تایا جنگ سے متعلق فلموں سے نفرت کرتے تھے۔ ’وہ کہتے تھے کہ جنگ کبھی بھی ہالی ووڈ فلموں کی طرح خوبصورت اور گلیمرس نہیں ہوسکتی۔ جنگ ایک اذیت ہے جو اسے جھیلتے ہیں انہیں معلوم ہے۔‘

راؤ خلافت 80 برس کی عمر میں انتقال کر گئے اور اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ ان کی کہانی ان کی موت کے بعد عام ہوگی۔ اس کی ایک وجہ ان کی لاہور سے تعلق رکھنے والی اہلیہ غزالہ جہانگیر راؤ کی اپنی نجی زندگی اور خاندانی تقاضے بھی تھے۔

انہوں نے کتاب کے ابتدائیے میں لکھا کہ ’کیونکہ میری انگریزی لکھنے کی رفتار تیز نہیں تھی اور تاریخ کے بارے میں میری سمجھ اس سے بھی بدتر تھی۔ ایک نوجوان دلہن سے میں نے اچانک اپنے آپ کو اُتنی ہی جوان بیوہ پایا۔ دو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال مشکل تھی جس کے لیے میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج کا دوبارہ رخ کیا۔ اس وجہ سے مجھے میرے مرحوم شوہر کی خواہشات کو پس پشت ڈالنا پڑا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ان کے دونوں بچے آکسفورڈ چلے گئے ہیں ان کی لاہور میں وکالت کی پریکٹس اچھی چل رہی ہے، تو انہیں یقین ہوا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ نے اپنے مرحوم شوہر سے کیا وعدہ وفا کرسکیں۔

واصف رشید کہتے ہیں کہ ’جنگ کے بعد ہندوستانی افسروں کی طرف سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ کچھ نے تقسیم کے بعد نوزائیدہ ہندوستانی اور پاکستانی فوجوں کی قیادت کی لیکن عام سپاہی کو جن آزمائشوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا، تاریخ دانوں نے کبھی پوری طرح سے تحقیق نہیں کی۔ انہیں سلطنت کے محض پیدل سپاہی، وفادار اور بہادر کہہ کر بات مکمل کر لی گئی۔ اس کتاب نے جنگ سے وابستہ رومانس کو ڈی کنسٹرکٹ کیا ہے۔‘

انگریزی ورژن کے مدیر واصف رشید کہتے ہیں کہ اس کتاب میں کلارا نامی اطالوی لڑکی کے ساتھ ان کی محبت کی کہانی قابل ذکر ہے۔ ’ان دونوں کی ملاقات ان کے فوج میں شمولیت کے فوری بعد ہوئی تھی اور ان کے ساتھ وہ رابطے میں طویل عرصے تک رہے لیکن ان کی شادی نہ ہوسکی۔‘  

واصف رشید نے بتایا کہ ان کے تایا کی یادگار چیزیں نہیں بچ پائیں۔ مختلف سفر کے دوران حالات و واقعات ایسے رہے کہ کبھی ریکارڈ بچ نہیں پایا۔

راؤ خلافت کے پسماندگان اب امید کر رہے ہیں کہ انہوں نے ان کی انتہائی اہم زندگی کے ساتھ دیر آئد درست آئد انصاف کر دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ