بچوں کا پناہ گزین کیمپ جس نے دنیا دیکھنے کا انداز بدل دیا

اگر ہوم آفس خطرے سے دوچار بچوں کو نجی ہوٹلوں میں رکھنا جاری رکھے گا تو لاپتہ بچوں کی تعداد بڑھتی رہے گی۔

15 اکتوبر, 2021 کو شمالی بوسنیا کے سرحدی قصبے ویلیکا کلادوسا کے باہر پناہ گزین کیمپ (اے ایف پی)

صنوبر کے درخت کے سائے میں سحر مجھے رنگ کرنے والی اپنی پنسلوں کے نام سکھا رہی ہیں۔

پانچ سال کی عمرمیں انہیں یہ پتہ نہیں کہ جو الفاظ وہ استعمال کر رہی ہیں وہ کم از کم تین مختلف زبانوں؛ عربی، انگریزی اور یونانی کے ہیں (شائد کرد زبان کے بھی لیکن مجھے یقین نہیں ہے۔)

وہ ایک فطری استاد ہیں جوہمارے جاتے جاتے میرا امتحان لیتی ہیں۔ مجھے ایک جیسے رنگوں کے درمیان فرق پر پکڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔

بعض اوقات جب میں درست جواب دے دیتا ہوں تو وہ دکھاوا کرتی ہیں کہ میں غلط ہوں۔

پھر وہ اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے ہاتھ میں پکڑی پنسل کو کاغذ کے ٹکڑے پر لکھنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

جب سبز رنگ کی پنسل واقعی سبز رنگ کا نشان بناتی ہے وہ حیران ہونے کی اداکاری کرتی ہیں۔

وہ شرارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں کہ ’ٹھیک ہے! ٹھیک ہے۔‘

سحر ان 37 لاکھ پناہ گزین بچوں میں سے ایک ہیں جو سکول نہیں جاتے۔ اس کی بجائے ایسے وقت جب دنیا بھر میں ان جیسے بچے دوستوں کے ساتھ کھیل اور پڑھ رہے ہیں، وہ اپنے دن دو بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گزارتی ہیں۔

سب سے چھوٹا بچہ اتنا چھوٹا ہے کہ جب میں پہلی بار انہیں اکٹھے دیکھا تو میں نے سوچا کہ سحر نے گڑیا اٹھا رکھی ہے۔ تینوں بچوں میں سے صرف سحر کیمپ سے باہر زندگی گزار چکی ہیں – لیکن انہیں وہ دن یاد نہیں۔

سکول کی عدم موجودگی میں تینوں وقت کے احساس کے بغیر کیمپ میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ وقت کے بارے میں سحر صرف اتنا جانتی ہیں کہ ’اب‘ اور ’اس کے بعد‘۔

ان کی دنیا میں گھنٹے اور دن میں کسی دوسرے گھنٹے یا دن کے درمیان زیادہ فرق نہیں۔

شروع میں مجھے ان کی آزادی پر کچھ رشک آیا۔ جب میں لندن کے پرائمری سکول میں پڑھتا تھا تو مجھے محسوس ہوتا کہ ہم بچوں کے وقت کو ضرورت سے  زیادہ باقاعدہ بنا رکھا ہے اور ان کی سرگرمیوں کو منٹ کی حد تک لے گئے ہیں۔

لیکن اس ردعمل میں بہت زیادہ سادہ پن تھا۔ ثبوت واضح ہے کہ تھوڑے عرصے کے لیے بھی تعلیم سے محرومی تعلیمی نتائج کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔

مزید برآں جیسا کہ تازہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے، رسمی تعلیم کمزور بچوں کو استحصال سے بچانے کے لیے اہم طریقہ ہے۔

منگل کو امیگریشن کے وزیر رابرٹ جینرک نے اعتراف کیا کہ تقریباً 200 بچے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق البانیہ سے ہے، ہوم آفس کی جانب سے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے استعمال کیے جانے والے ہوٹلوں سے اب بھی لاپتہ ہیں۔

ہوٹلوں کے عملے کے مطابق ان میں سے بہت سے بچوں کو جرائم پیشہ گروہوں نے جنسی استحصال اور منشیات فروشوں کے نیٹ ورکس ’کاؤنٹی لائنز‘ کے لیے اغوا کیا ہوگا۔

سکول صرف دن کے وقت ہی ایسے بچوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوتے - وہ ان بچوں کی شناخت اور ان کی حفاظت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں جو سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔

چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، آگے بڑھ کر بچوں کی حفاظت کا زیادہ تر کام وہ لوگ کرتے ہیں جو ان پر مسلسل نظر رکھتے ہیں: ان کے اساتذہ۔

اگر ان بچوں کو تعلیم اور نگہداشت کے شعبوں تک رسائی دی جاتی تو ہوم آفس کے ساتھ کنٹریکٹ کرنے والے ہوٹلوں میں نظروں سے اوجھل رہنے کی بجائے تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کے ذریعے ان کی حفاظت کی جا سکتی تھی۔

اخبار دا گارڈین نے انکشاف کیا ہے کہ اگست 2021 کے اوائل میں بڑے سرکاری افسروں نے ایک محکمانہ دستاویز میں تسلیم کیا کہ ہوم آفس بے ضابطہ اور غیر قانونی بچوں کے گھر مؤثر انداز چلا رہا ہے۔

سیاسی پناہ کے متلاشی بچوں کو نجی ہوٹلوں میں رکھنے کے فیصلے کا محرک سیاسی تھا۔ یہ انہیں نظروں اور سوچ سے دور رکھنے کی خواہش تھی۔

پورے یورپ میں امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کی بہترین کوششوں کے باوجود بچوں سمیت پناہ گزینوں کے خلاف معاندانہ رویے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے یونان میں جس غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کیا وہ گذشتہ چھ سال سے پناہ گزینوں کے بچوں کو غیر رسمی تعلیم اور مدد فراہم کر رہی ہے۔

یہ این جی او ان بہت سی غیر سرکاری تنظیموں لوگوں میں سے ایک ہے جنہوں نے ان کیمپوں تک رسائی حاصل کی جن کے قیام کی اجازت یونانی حکومت نے اس ماہ منسوخ کر دی تھی۔

دریں اثنا برطانوی میڈیا کے گوشوں میں غیر سفید فام غیر ملکیوں کی طرف سے عمر کے بارے میں جھوٹ بول کر ملک میں داخل ہونے کا گھسا پٹا ذکر پایا جاتا ہے۔

ایسے کیس پائے جاتے ہیں جن میں اس طرح کے جھوٹے دعوے کیے گئے – سیاسی پناہ کے متلاشی افغان شہری لاونگین عبدالرحیم زئی کے ہاتھوں تھامس رابرٹس کا قتل ایک خوف ناک تازہ مثال ہے - لیکن اس بات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں میں سے ڈیڑھ  فیصد سے کم پر عمر کے بارے میں جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

ہوم آفس کی تحقیقات کے بعد عمر کے زیادہ تر دعووں کو بالآخر برقرار رکھا گیا۔ ایسے غیر ملکیوں کی اتنی تھوڑی تعداد کی وجہ سے ہم اپنا دل سخت نہیں کر سکتے۔

’پیسے کمانے کے لیے ملک چھوڑنے والے‘  نام نہاد لوگوں کے بارے میں آپ جو بھی سوچتے ہوں، سحر جیسے اور ان جیسے بچے جو سسیکس اور کینٹ کے ہوٹلوں سے غائب ہو چکے ہیں، سیاسی پناہ کا متلاشی بننے کا انتخاب نہیں کرتے۔

تاہم وہ ہمارے ساحلوں تک پہنچ جاتے ہیں، ہمارا فرض ہے – کم از کم – اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب وہ یہاں پہنچ جائیں تو استحصال کا شکار نہ ہوں۔

گھریلو تشدد اور تحفظ کی شیڈو وزیر جیس فلپس پہلے ہی بچوں کو بے ضابطہ رہائش گاہ میں منتقل کرنے کی پالیسی ختم کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

لیکن سیاسی پناہ کے متلاشی بچوں کو بھی بلا تاخیر سکولوں اور دیکھ بھال کے اداروں میں داخلہ ملنا چاہیے۔

اگر ہوم آفس خطرے سے دوچار بچوں کو نجی ہوٹلوں میں رکھنا جاری رکھے گا تو لاپتہ بچوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر