ازخود نوٹس: حکومتی جماعتوں کا دو ججز پر اعتراض، فل کورٹ کی استدعا

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے بینچ میں شامل دو ججز کے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے کیسز نہ سننے کی بھی استدعا کی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا منظر (اے ایف پی)

سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر جمعے کو ہونے والی سماعت میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام نے کیس سننے والے دو ججز پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے دونوں ججز کے مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے کیسز نہ سننے کی بھی استدعا کی ہے جبکہ پی پی پی نے عدالت سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی بھی استدعا کی ہے۔

جمعے کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے دونوں صوبوں میں انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ لارجر بینچ میں

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔ تاہم سینیئر ترین ججز یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔ 

گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران بینچ میں شامل دو ججوں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ نے ازخود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں، چاروں صوبوں کے گورنروں اور صدر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آج (جمعے) کے لیے ملتوی کر دی تھی۔

جمعے کو سماعت کے آغاز میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض اٹھایا، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تمام فریقین کو سن کر ججز پر اعتراض کا معاملہ دیکھیں گے۔

فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ منصور اعوان مسلم لیگ ن کی جبکہ کامران مرتضی جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی نمائندگی کریں گے۔

فاروق نائیک نے عدالت کو بتایا کہ انہیں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن سے کوئی ذاتی عناد نہیں، انہوں نے جماعت کی ہدایت پر ججز پر اعتراض اٹھایا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’مسلم لیگ ن، پی پی پی، جے یو آئی اور پاکستان تحریک انصاف کے وکیل موجود ہیں۔ پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس کیا گیا ہے، صدر سپریم کورٹ بار کے علاوہ بھی کوئی وکیل پیش ہو سکتا ہے۔ گذشتہ روز جن فریقین کو نوٹس کیا، ان کے وکلا آج موجود ہیں۔‘

عدالت میں پی پی پی، جے یو آئی اور مسلم لیگ ن کا مشترکہ تحریری بیان پیش کیا گیا۔

مشترکہ بیان کے مطابق: ’منصفانہاور شفاف ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ سے الگ ہو جائیں، دونوں ججز کے کہنے پر از خود نوٹس لیا گیا، اس وجہ سے یہ ججز بینچ سے الگ ہو جائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فاروق نائیک نے غلام محمود ڈوگر کیس میں دونوں ججز کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ’غلام محمود ڈوگر کے سروس میٹر میں ایسا فیصلہ آنا تشویش ناک ہے۔‘

دوسری جانب فاروق نائیک نے مشترکہ بیان عدالت کو سناتے ہوئے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی اپنے آپ کو  بینچ سے الگ کر لیں اور دونوں ججز مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سے منسلک کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ از خود نوٹس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔ ’فاروق نائیک صاحب کیوں ناں فل کورٹ از خود نوٹس پر سماعت کرے۔‘

جس پر پی پی پی کے وکیل نے کہا کہ وہ یہی چاہتے ہیں کہ اس کیس کی سماعت فل کورٹ کرے، دونوں ججز اپنی رائے کا اظہار ڈوگر کیس میں پہلے ہی کر چکے ہیں۔

’سیاسی معاملات کو پارلیمان میں حل ہونا چاہیے‘

شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ میڈیا پر ججز کی توہین کی جا رہی ہے، سپریم کورٹ کو ججز کی تضحیک کا نوٹس لینا چاہیے۔ کوئی سیاسی جماعت اپنی مرضی کے ججز شامل نہیں کر سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے فاروق نائک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’سیاسی معاملات کو پارلیمان میں حل ہونا چاہیے۔ اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے؟‘

جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ وہ اس حوالے سے اپنی جماعت سے ہدایت لیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ انتہائی اہم ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فاروق نائیک سے پوچھا کہ کیا یہ نوٹ ان کے پاس ہے؟ یہ نوٹ تو تحریری حکمنامے کا حصہ ہے جس پر ابھی دستخط نہیں ہوئے۔

’کیا آپ کو معلوم ہے اس بار آئین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے؟‘

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’16 فروری کو فیصلہ آیا اور 22 فروری کو از خود نوٹس لیا گیا، جس کو لینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 تین کے ساتھ سپیکرز کی درخواستیں بھی آج سماعت کے لیے مقرر ہیں، عدالت ان درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے۔‘

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا: ’از خود نوٹس سے پہلے بہت سنجیدہ معاملات سامنے آئے جن میں صدر کی جانب سے تاریخ دینا دوسرا سپیکرز کی جانب سے درخواست آنا شامل ہیں۔ عام طور پر شہری انصاف کے لیے عدالت آتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس بار آئین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے؟‘

بعد ازاں کیس کی سماعت 27 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔

ازخود نوٹس

سپریم کورٹ سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’ازخود نوٹس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے، انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری کس نے اور کب پوری کرنی ہے، اور وفاق اور صوبوں کی آئینی ذمہ داری کیا ہے؟‘

سپریم کورٹ نے یہ ازخود نوٹس آئین کی دفعہ 184 کی ذیلی شق تین کے تحت لیا ہے۔

چیف جسٹس نے اعلامیے میں کہا کہ ’سامنے رکھے گئے مواد پر غور کرنے کے بعد، میرا خیال ہے کہ جو مسائل اٹھائے گئے ہیں ان پر اس عدالت کے فوری حل، آئین کی کئی دفعات اور الیکشنز ایکٹ کے متعلقہ سیکشنز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آئین سیاسی جماعتوں اور شہریوں کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند کے نمائندوں کو اسمبلی میں اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب کریں اس لیے دونوں صوبوں میں حکومت کو آئین کے مطابق چلانے کے لیے یہ ضروری ہے۔‘ 

چیف جسٹس نے رجسٹرار آفس کو حکم دیا کہ ’پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق تمام زیر التوا درخواستیں بھی ساتھ مقرر کی جائیں۔‘

اعلامیے میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے یہ معاملہ بھجوایا تھا۔

رواں ماہ دس فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 90 روز کے اندر الیکشن کا انعقاد ایک آئینی تقاضا ہے، جس پر عمل درآمد نہایت ضروری ہے۔

بعدازاں 16 فروری کو سی سی پی او لاہور تبادلہ کیس کے دوران سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے تحریری فیصلے میں 90 دن میں انتخابات میں تاخیر پر چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا کہہ دیا۔

فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ ’90 دنوں میں پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا رہے ہیں۔ اگر چیف جسٹس پاکستان چاہیں تو انتخاب میں تاخیر پر ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔‘

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کب تحلیل ہوئی؟

پنجاب اسمبلی 14 جنوری جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی۔

آئین کے آرٹیکل 224 کی شق دو کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد کرانا ہوتا ہے۔

ازخود نوٹس کے اعلامیے میں کہا گیا: ’اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر ہوئی جس میں سنگل بینچ نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ گورنر اور الیکشن کمیشن نے عدالت کو کوئی جواب جمع نہیں کرایا، جس کے بعد 20 فروری کو صدر پاکستان نے نوٹس لیتے ہوئے صوبائی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ لیکن یہ معاملہ تاحال حل نہیں ہوا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان