کراچی کا ضمنی الیکشن جو نواب آف کالا باغ کو لے ڈوبا

صدر ایوب نے محمود ہارون کو وزیر ہی اسی لیے بنایا تھا کہ وہ اس نشست پر کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے اپنے دوست خان بہادر پراچہ کو منتخب کروانا چاہتے تھے۔ مگر انہیں یہ گمان نہیں تھا کہ وہ نواب آف کالا باغ کے حریف تھے اور نواب ہر قیمت پر ان کی شکست چاہتے تھے۔

 جب نواب آف کالا باغ کو صدر ایوب نے مغربی پاکستان کاگورنر نامزد کیا تو حبیب اللہ پراچہ کو اندازہ تھا کہ نواب ان کے خلاف کارروائی کریں گے جس پر وہ بھی آستینیں کس کر میدان میں آ گئے(تصویر: فوٹو آرکائیوز آف پاکستان)

میر غوث بخش بزنجو کوبابائے بلوچستان کہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی طویل سیاسی جدوجہد سے عبارت تھی جس کا بیشتر حصہ قید و بند میں گزارا۔

نیشنل عوامی پارٹی کے بانیوں میں تھے اور بھٹو دور میں مختصر عرصے کے لیے گورنر بلوچستان بھی رہے۔

ان کے رفیق کار اور معروف صحافی بی ایم کٹی نے میر غوث بخش بزنجو کی ڈائری کے اوراق سے ایک کتاب مرتب کی ہے جس کا نام ’مقصدِ سیاست ‘ ہے اور جسے جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔

اس کتاب کے صفحہ 117 پر انہوں نے وہ واقعہ درج کیا ہے جس کی وجہ سے صدر ایوب نے نواب آف کالا باغ سے استعفی ٰ لے لیا تھا۔

نواب آف کالا باغ 1960 سے 1966 تک گورنر مغربی پاکستان رہے وہ صدرایوب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔

صدر ان کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف تھے اور ان پر از حد اعتماد کرتے تھے۔

نواب صاحب کو کلی اختیارات حاصل تھے جن کا وہ بھرپور استعمال کرتے تھے لیکن پھر ایک واقعہ ایسا رونما ہوا جو تعلقات میں دراڑ کا سبب بن گیا۔

نواب آف کالا باغ سے نہ صرف استعفیٰ لے لیا گیا بلکہ اس کے بعد صدر ایوب اور نواب آف کالا باغ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ رہے۔

وہ واقعہ کیا تھا اس کی تفصیل بتاتے ہوئے میر غوث بخش بزنجو لکھتے ہیں کہ جب صدر ایوب نے دو جنوری، 1965 کو عام انتخابات کا اعلان کیا تو مولانا بھاشانی نیشنل عوامی پارٹی کے صدر تھے جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔

بلوچستان میں انتخابی مہم کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی لیکن انتخابات سے چند روز پہلے مجھے گرفتار کر لیا گیا اور اس وقت رہا کیا گیا جب ایوب خان صدر منتخب ہو چکے تھے۔

مولانا بھاشانی نے فاطمہ جناح سے غداری کی

میر غوث بخش بزنجو لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے ان تمام علاقوں میں جہاں مولانا اثر و رسوخ رکھتے تھے ایوب کو نسبتاً زیادہ تعداد میں ووٹ ملے تھے۔

یہ رپورٹیں گردش میں تھیں کہ مولانا نے فاطمہ جناح کی بجائے صدر ایوب کی پشت پناہی کی تھی۔

بعد میں انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ایوب خان کی حمایت کی تھی اور اپنے دفاع کے لیے ہر قسم کے دلائل پیش کیے۔

میر غوث بخش بزنجو لکھتے ہیں کہ مولانا کو صدر ایوب کی طرف راغب کرنے میں بنیادی کردار کراچی کے ممتاز صنعت کار حبیب اللہ پراچہ کا تھا جنہوں نے ان کی ملاقات صدر ایوب سے کروا دی تھی۔

اس کے بعد وہ کھلم کھلا کہنے لگے تھے کہ ہمیں ایوب کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے اور دلیل دی کہ صدر ایوب چین کے ساتھ دوستی کو فروغ دے رہے تھے۔

نواب آف کالا باغ نے صدر ایوب کے امیدوار کو ہروا دیا

محمود ہارون جب ایوب کابینہ میں شامل ہو گئے تو انہوں نے کراچی کی نشست چھوڑ دی کیونکہ ا س زمانے میں قانون یہ تھا کہ قومی اسمبلی کا کوئی رکن جب وزیر بن جاتا تھا تو اس سے نشست واپس لے لی جاتی تھی۔

 صدر ایوب نے محمود ہارون کو وزیر ہی اسی لیے بنایا تھا کہ وہ اس نشست پر کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے اپنے دوست خان بہادر پراچہ کو منتخب کروانا چاہتے تھے۔

مگر انہیں یہ گمان نہیں تھا کہ وہ نواب آف کالا باغ کے حریف تھے اور نواب ہر قیمت پر ان کی شکست چاہتے تھے۔

یہ نشست ہارون فیملی کی جدی پشتی نشست تھی اور محمود ہارون سے پہلے ان کے والد سر عبداللہ ہارون بھی اسی حلقے سے منتخب ہوئے تھے وہ بھی ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ نشست کسی ایسے شخص کو مل جائے جو آگے چل کر ان کے خاندان کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا ہو۔

چنانچہ محمود ہارون اور نواب آف کالا باغ ، حبیب اللہ پراچہ کو شکست دینے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔

انہوں نے ایک موزوں امیدوار کی تلاش شروع کر دی بالآخر ان کی نظر ِ انتخاب میر غوث بخش بزنجو پر ٹھہری جو حال ہی میں جیل سے رہا ہوکر اپنے گاؤں نال ضلع خضدار میں مقیم تھے اور گذشتہ انتخابات میں نواب آف کالا باغ کے حکم پر ہار چکے تھے۔

بزنجو لکھتے ہیں کہ انہیں اپنے بیٹے کی طرف سےاوپر تلے کئی ٹیلی گرام ملے کہ وہ فوراً کراچی پہنچیں۔

کراچی پہنچنے کے بعد محمود ہارون مجھے لاہور سے ملنے آئے تھے انہوں نے مجھے پوری کہانی سنائی۔

میں نے کہا کہ ’اگر نواب آف کالا باغ مجھے بلوچستان میں شکست دینے کے لیے جوڑ توڑ کر سکتے تھے تو صدر ایوب کے لیے تو زیادہ آسان ہو گا کہ وہ ریاستی مشینری کو کراچی میں میرے خلاف استعمال کرتے ہوئے مجھے شکست دلوائیں اور جب صدر ایوب کی طرف سے زیادہ دباؤ آئے گا تو محمود ہارون اور نواب آف کالا باغ دونوں مجھے چھوڑ دیں گے۔‘

لیکن محمود ہارون نے کہا کہ میرے اندیشے بے بنیاد ہیں۔ میں نے کہا ’محمود دیکھو تم ایک میمن ہو، تمہارا شمار کراچی کے سب سے زیادہ با وسائل خاندانوں میں ہوتاہے اور نواب آف کالا باغ پنجاب کے جاگیر دار ہیں۔

’کہا جاتا ہے کہ پنجابی جاگیر دار کی روح پولیس ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کی مٹھی میں ہوتی ہے اور تم بزنس مینوں کی زندگی فنانس سیکرٹری کی مٹھی میں ہوتی ہے، تم ہماری بیش قیمت دوستی کو تباہ کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہو؟

’تم اگر پھر بھی مصر ہو تو جاؤ اور میرے اندیشے حرف بہ حرف نواب آف کالا باغ تک پہنچا دو۔‘

محمود اسی روز لاہور روانہ ہو گئے اور اگلے روز آ کر بتایا کہ انہوں نے میرا ہر لفظ نواب آف کالا باغ تک پہنچا دیا ہے اور ان کاجواب تھا کہ وہ مکمل طور پر یقین حاصل کریں گے کہ حکومتی مشنری اس الیکشن میں مداخلت نہ کرے۔

ہاورن کے بڑے بھائی یوسف ہارون میری انتخابی مہم چلا رہے تھے نیپ اور مارکسٹ کارکن بھی میرے ساتھ تھے۔

جب الیکشن کے نتائج کا علان ہوا تو صدر ایوب کے امیدوار ایک ایسے امیدوار سے ہار چکے تھے جس سے وہ اپنے بد ترین دشمن کے طور پر نفرت کرتے تھے۔

 وہ ان سب پر بری طرح برس پڑے جنہوں نے میری پشت پناہی کی تھی۔

محمود ہارون کو فوراً مغربی پاکستان کی کابینہ سے نکال دیا گیا ان اقدامات سے غیر مطمئن ایوب مزید آگے بڑھے اور انہوں نے نے 18ستمبر، 1966 کو نواب آف کالا باغ کو گھر بھیج دیا۔

حبیب اللہ خان پراچہ کون تھے ؟

وہ شخص جس کی شکست نواب آف کالا باغ کی رخصتی کا باعث بنی وہ کون تھا ؟ اور اس کے صدر ایوب سے تعلقات کی نوعیت کیا تھی ؟

اس حوالے سے جاننے کے لیے کافی عرصہ متحرک رہا لیکن زیادہ معلومات نہیں ملیں۔

میری ایک پرانی جاننے والی جن سے سوشل میڈیا پررابطہ تھا وہ بھی پراچہ فیملی سے تھیں اور کراچی میں ہی مقیم تھیں۔

آبائی تعلق بھی حبیب اللہ پراچہ کے گاؤں مکھڈ ضلع اٹک سے تھا۔ جب ان سےرابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ خان بہادر حبیب اللہ پراچہ کے بھانجے کی شریک حیات ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خان بہادر کی زندگی پر ایک کتاب ان کی پوتی نے لکھی ہے۔

جب ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے وہ کتاب مجھے پوسٹ سے بھیج دی۔

کتاب کا نام ہے Paracha HM Habibullah’s Journey Across the Silk Road & Beyond جس کی مصنفہ نازلی رفعت جمال ہیں جو ایک کاروباری خاتون ہونے کے ساتھ کلارک کالج امریکہ سے صحافت اور سیاسیات میں فارغ التحصیل ہیں۔

 350 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب کئی حیرت انگیز واقعات لیے ہوئے ہے جن پر مزید لکھوں گا لیکن فی الوقت ہمارا موضوع یہ ہے کہ خان بہادر حبیب اللہ پراچہ کون تھے؟

خان بہادر حبیب اللہ پراچہ نے دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹے مگر تاریخی اہمیت کے حامل گاؤں مکھڈ ضلع اٹک میں 1897 میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان تجارت پیشہ تھا۔

حبیب اللہ پراچہ کی عمر جب 14 سال ہوئی تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شاہراہ ِریشم سے ہوتے ہوئے پہلے کابل، مزار شریف اور پھر بخارا چلے گئے۔

جہاں انہوں نے مدرسہ الغ بیگ میں انگریزی اور روسی زبان سیکھی۔ یہ گریٹ گیم کا زمانہ تھا اور بڑی طاقتوں میں کشمکش عروج پر تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برصغیر سے تاجروں کے روپ میں انگریز سرکار روس میں جاسوسی مشن جاری رکھے ہوئے تھی، جس میں مولانا محمد حسین آزاد جیسے لوگوں کو بھی روسی ریاستوں میں بھیجا گیا تھا۔

کتاب میں یہ تو نہیں لکھا گیا کہ حبیب اللہ پراچہ بھی اسی مشن پر گئے تھے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ پراچہ خاندان چونکہ پہلے ہی وسط ِ ایشیائی ریاستوں سے تجارت کر رہ تھا اس لیے حبیب اللہ پراچہ بھی اسی مشن پر تھے۔

بخارا کے حالات جب خراب ہوئے تو حبیب اللہ پراچہ نے اپنا کاروبار ایران اور افغانستان میں جمانے کی کوشش کی مگر وہاں پر سیاسی افرا تفری کہ وجہ سے وہ جم نہ سکے اور شنگھائی چلے گئے جہاں ان کی چائے کی تجارت خوب پھلی پھولی اور انہوں نے یہاں پر کافی جائیداد خریدی۔

پھر چین کے بڑے علاقے پر جاپان نے قبضہ کر لیا تو حبیب اللہ پراچہ نے جاپان میں چائے کا کاروبار شروع کر دیا کہ اسی دوران دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی اور ان کا تعلق چونکہ برٹش انڈیا سے تھا جو اب جاپانیوں کا دشمن بن گیا تھا اس لیے وہ واپس آ گئے اور امرتسر میں سکونت اختیار کر لی جہاں انہوں نے ایک ٹیکسٹائل مل لگا لی۔

انگریز نے انہیں خان بہادر کا خطاب دے دیا۔ تقسیم کے وقت کراچی منتقل ہو گئے جہاں کاروبار کے ساتھ ساتھ انہوں نے مہاجرین کی آبادکاری میں دلچسپی لی۔

حکومت نے ان کی خدمات کو مد ِنظر رکھتے ہوئے انہیں کراچی میونسپل کارپوریشن کا وائس چیئرمین لگا دیا جو اس زمانے میں مئیر کے برابر تھا۔

کراچی ہی چونکہ دارالحکومت تھا اس لیے انہیں پاکستان کادورہ کرنے والی ممتاز عالمی شخصیات کا استقبال کرنے کا موقع بھی ملا جن میں ملکہ الزبتھ، صدر کنیڈی، صدر نکسن، جمال عبد الناصر اور جاپانی شہنشاہ اکی ہیٹو بھی شامل تھے ۔

حبیب اللہ پراچہ مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہو گئے جس کے بعد ان کی نظریں قومی اسمبلی پر تھیں۔ نواب آف کالا باغ ان دنوں پاکستان انڈسٹریل کارپوریشن کے چیئرمین تھے۔

انہوں نے حبیب اللہ پراچہ کی کوئلے کی کانوں کی لیز کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا تھا جو کالاباغ کے قریب مکڑوال میں تھیں۔

حبیب اللہ پراچہ کئی تجارتی پالیسیوں پر حکومت پر تنقید بھی کرتے تھے۔

ایوان صدر میں دونوں کی ملاقاتیں بھی ہوتی تھیں دونوں ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے کیونکہ مکھڈ اور کالا باغ قریب قریب واقع ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ نواب اپنے علاقے میں کسی اور کو ابھرتا ہوا دیکھ نہیں سکتے تھے اور وہ بھی ایک ایسا شخص جو صدر ایوب کے قریب ہو۔

حبیب اللہ پراچہ اس وقت حیران رہ گئے جب ایک دن کالا باغ کے علاقے میں شکار کے دوران نواب آف کالا باغ نے انہیں متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’حبیب اللہ کوئی غلطی نہ کرنا میں دشمنی اور دوستی دونوں تمام عمر نبھاتا ہوں۔

’میں پیچھے سے بھی وار نہیں کرتا مجھ سے کوئی توقع نہ رکھنا میں تمہارے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لوں گا۔‘

حبیب اللہ نے جب نواب کی آنکھوں میں غضب دیکھا تو انہوں نے نواب آف کالا باغ کا چیلنج قبول کر لیا۔

جب نواب آف کالا باغ کو صدر ایوب نے مغربی پاکستان کاگورنر نامزد کیا تو حبیب اللہ پراچہ کو اندازہ تھا کہ نواب ان کے خلاف کارروائی کریں گے جس پر وہ بھی آستینیں کس کر میدان میں آ گئے۔

نواب آف کالا باغ نے بھی عہدہ سنبھالتے ہی حبیب اللہ پراچہ کے خلاف تحقیقات شروع کروا دیں مگر انہیں بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

صدر ایوب حبیب اللہ پراچہ کو قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کروا کر وفاقی وزیر بنوانا چاہتے تھے اس کے لیے انہوں نے کراچی کے ضمنی انتخاب میں حبیب اللہ پراچہ کو کنونشن مسلم لیگ کا ٹکٹ دے دیا۔

مگر نواب آف کالا باغ نے سازش کر کے انہیں ہروا دیا۔ صدر ایوب نے فوری طور پر انٹیلی جنس بیورو اور ملٹری انٹیلی جنس سے رپورٹس مانگیں جنہوں نے بتایا کہ نواب آف کالا باغ نے انہیں ہروایا ہے جس کی ثبوت صدر کو دکھائے گئے۔

صدر ایوب سیخ پا ہو گئے انہوں نے فوری طور پرمحمود اے ہارون اور جام آف لسبیلہ کو اپنی کابینہ سے نکال دیا اور نواب آف کالا باغ کو بھی بلا کر ان سے استعفی ٰ لے لیا۔

اس طرح نواب آف کالا باغ جو صدر ایوب کے دور میں سیاہ و سفید کے مالک تھےگورنر ہاؤس سے نکالے گئے۔

خان بہادر پراچہ نے کئی مواقع پر تاریخی کردار ادا کیا وہ بھٹو کے بھی قریب رہے جنہوں نے انہیں ملائشیا میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیج دیا۔

ضیا دور میں یہ حبیب اللہ پراچہ ہی تھے جن کے کہنے پر بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کو رہا کیا گیا اور وہ بیرون ِ ملک چلی گئیں۔

کتاب میں لکھا ہے کہ بینظیر بھٹو کو شادی پر راضی بھی حبیب اللہ پراچہ نے ہی کیا تھا کہ وہ سیاست میں آنے سے پہلے شادی کریں۔

حبیب اللہ پراچہ نے دو شادیاں کر رکھی تھیں جن سے ان کے 11 بچے تھے۔

ان کی ایک بیٹی یاقوت کی شادی جنگ گروپ کے میر خلیل الرحمٰن کے چھوٹے بھائی میرجمیل الرحمٰن سے ہوئی جن کے ولیمے میں محترمہ فاطمہ جناح بھی شریک ہوئیں۔

ان کے ایک بیٹے سیف اللہ خان پراچہ دو بار بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئےاور دو بار بلوچستان سے صوبائی وزیر بھی رہے وہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

پراچہ خاندان آج بھی کراچی اور کوئٹہ میں ممتاز کاروباری خاندان کے طور پر جانا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ