بلاول بھٹو نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اشارہ کیوں دیا؟

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی موجودہ معاشی صورتحال اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب الیکشن سے قبل اتحادی حکومت سے علیحدگی اختیار کرے گی تاکہ وہ اس کی ذمہ داری سے بری ہوسکے۔

پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری 30 جنوری 2023 کو اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں وفاقی حکومت میں شامل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ’مطالبات نہ ماننے کی صورت میں‘ حکومت سے علیحدگی کا اشارے کو سیاسی مبصرین پی پی پی کی جانب سے الیکشن کی تیاری قرار دے رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی پاکستان کے مرکز میں اتحادی حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت ہے اور بلاول بھٹو زرداری اس کے چیئرمین اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ ہیں۔

صحافی، معروف سیاسی تجزیہ کار اور سندھی زبان کے ٹی وی چینل دھرتی نیوز کے اینکر پرسن فیاض نائچ سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کا حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اشارہ ان کی جماعت کی جانب سے الیکشن کی تیاری کے سوا کچھ نہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فیاض نائچ نے بتایا: ’پاکستان پیپلز پارٹی مرکز میں اتحادی حکومت کا حصہ تو ضرور ہے مگر پیپلز پارٹی نے عمران خان کی سابق حکومت مخالف نو جماعتی اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے اپریل 2021 میں علیحدگی کے بعد موجودہ اتحادی حکومت میں شامل ہونے کے باجود خود کو سیاسی طور پر آزاد ہی رکھا ہے۔

’اتحادی حکومت کے معاشی بحران پر قابو نہ پانے، سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں اور دیگر ناکامیوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے خود کو علیحدہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن سے قبل علیحدگی اختیار کرکے یہ تاثر دے سکے کہ اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کے باجود اتحادی حکومت کو جن ناکامیوں کا طعنہ دیا جاتا ہے، ان شعبوں کی وزارتیں پی پی پی کے پاس نہیں بلکہ مسلم لیگ نواز کے پاس تھیں۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سندھ حکومت کے ’سبسڈی پروگرام: گندم بیج کی ادائیگی‘ منصوبے کا افتتاح کرنے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر مرکزی اتحادی حکومت نے سندھ کے سیلاب متاثرین کو امداد فراہم کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو ان کی پارٹی کے لیے وفاقی حکومت کا حصہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔‘

ڈیجیٹل مردم شماری کے طریقہ کار پر بھی اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ انہیں مردم شماری پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اس کے علاوہ یہ ناقابل قبول ہے کہ ایک صوبے میں الیکشن الگ مردم شماری کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور دوسرے صوبائی انتخابات ایک ’غلط‘ ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر ہوں۔

بلاول بھٹو زرداری نے مرکزی حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اشارہ ایسے وقت میں دیا ہے جب موجودہ حزب اختلاف کی جانب سے تحلیل کردہ دو صوبائی اسمبلیوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات سپریم کورٹ کی ہدایت پر منعقد ہونے والے ہیں۔

فیاض نائچ کے مطابق دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور ملک میں شدید معاشی بحران اور اس بحران پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا حکومت سے علیحدہ ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

فیاض نائچ کے مطابق: ’حال ہی میں جب صحافیوں نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے پوچھا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار میں کون بہتر رہے گا؟ تو اس پر زرداری نے جواب دیا کہ اس بات کا فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی نہیں بلکہ مسلم لیگ نواز کرے گی۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی تمام بحران سے خود کو علیحدہ رکھنا چاہتی ہے۔

’پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن مہم میں یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اسحاق ڈار کی جانب سے معاشی بحران پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ رانا ثنااللہ نے سیاسی مخالفین کے خلاف پرتشدد کارروائی کی۔ اس کے لیے ان کی جماعت نہیں نواز لیگ ذمہ دار ہے۔ پی پی پی کے پاس کلائمیٹ چینج کی وزارت ہے اور عالمی کانفرنس کوپ 27 میں ان جماعت کی وزارت نے عالمی رہنماؤں کو اس بات پر راضی کیا کہ پاکستان کو معاوضہ دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’گذشتہ حکومت کی خارجہ پالیسی میں غلط فیصلوں پر پاکستان عالمی طور پر تنہا ہوگیا تھا مگر اتحادی حکومت میں وزارت خارجہ پی پی پی کے پاس تھی اور ان کی وزارت میں اتنا کام ہوا کہ پاکستان کے عالمی سطح پر خراب تعلقات بحال ہوئے اور ساکھ بھی بحال ہوئی۔

’اس کے علاوہ جماعت کی پنجاب قیادت کا بھی اشارہ ہے کہ اگر پنجاب سے ووٹ لینا ہے تو الیکشن کے دوران خاص طور پر جنوبی پنجاب میں نواز لیگ مخالف نعرہ لگانا ہوگا۔ اس لیے بلاول بھٹو نے ایسا اشارہ دیا ہے۔‘

پیپلز پارٹی سندھ کے سینیئر رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا بلاول بھٹو نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اشارہ سیلاب سے متاثر آبادگاروں میں گندم کا بیج تقسیم کرنے والی تقریب میں خطاب کے دوران کیا۔

سعید غنی کے مطابق: ’سیلاب سے سندھ کو شدید نقصان پہنچا۔ جس پر وفاقی حکومت نے مکمل سپورٹ کا اعلان کیا مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔ ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ کیوں رہے؟ الیکشن بھی آرہے ہیں، ایسے میں ووٹر کو کیا منہ دھکائیں گے؟ اس لیے بلاول بھٹو نے ایسا بیان دیا۔‘

صحافی اور سیاسی تجزیہ کار منظور شیخ کے مطابق ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف سندھ میں شدید احتجاج کے بعد بلاول نے سندھ میں ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ایسا بیان دیا کہ انہیں مردم شماری پر تحفظات ہیں۔

منظور شیخ کے مطابق: ’سندھ میں ڈیجیٹل مردم شماری پر سندھی قوم پرست جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تو پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے کو ہائی جیک کرتے ہوئے ایسا بیان کہ سندھ کی عوام کو لگے کہ قوم پرستوں سے زیادہ پیپلز پارٹی اس معاملے کی مخالف ہے۔

’پی پی پی سندھ جیتنے کے ساتھ کچھ نششتیں بلوچستان اور پنجاب سے لینے کے موڈ میں ہے تاکہ اگلی اتحادی حکومت میں پارٹی کی پوزیشن بہتر ہو۔ ویسے 18ویں ترمیم کے بعد سندھ کے پاس فنڈز اور اختیارات کی کمی نہیں اور اس پر پیپلز پارٹی خوش بھی ہے۔ اس لیے الیکشن سے پہلے حکومت سے علیحدگی پی پی پی کے حق میں ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ نواز کی رہنما اور سابق رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ نے اپنی جماعت کا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی مرکزی حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ ان کا حق بنتا ہے کسی بھی قومی اشو پر اپنے تحفظات کا اظہار کریں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے حنا پرویز بٹ نے کہا کہ بلاول بھٹو کی طرح وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور ایم کیو ایم بھی مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔ جس پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایم کیو ایم سے خود رابطہ کیا ہے جبکہ آصف زرداری سے جمعے کو وزیراعظم شہباز شریف کی تفصیلی ملاقات ہوئی ہے۔

ان کے مطابق: ’اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے مردم شماری کا عمل شفاف طریقے سے مکمل کیا جائے گا۔ یہ مسلم لیگ ن کا ہی کریڈٹ ہے کہ وہ جب اقتدار میں آتی ہے مردم شماری کرواتی ہے۔ اس سے پہلے 2017 اور 1998 میں بھی میاں نوازشریف نے ہی بطور وزیراعظم مردم شماری کرائی تھی۔ اس بار بھی تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مردم شماری کو مکمل کیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست