امریکی پولیس میں کانسٹیبل کے عہدے پر فائز ہونے والے پاکستانی

نبیل شائق نے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن سے انتخاب لڑا اور اپنے مدمقابل امریکیوں اور دیگر قومیتوں کے امیدواروں کو شکست دے کر کانسٹیبل کا عہدہ حاصل کیا۔

’پاکستان میں سڑک پر ڈیوٹی دینے والا پولیس اہلکار کانسٹیبل کہلاتا ہے جبکہ امریکی پولیس میں سب سے بڑا عہدہ کانسٹیبل کا ہے۔‘

یہ کہنا ہے نبیل شائق کا، جو امریکی پولیس میں کانسٹیبل کے عہدے پر فائز پاکستانی ہیں۔

34 سالہ نبیل بچپن سے ہی نہ صرف محکمہ پولیس کو ناپسند کرتے تھے بلکہ نائن الیون کے بعد امریکہ میں ’مسلمانوں کے حوالے سے نفرت آمیز رویوں‘ نے ان کی پولیس کے حوالے سے سوچ کو بھی بدل کر رکھ دیا تھا۔

نبیل کی ’چھوٹی بہن حجاب پہنتی تھیں اور وہ جب تعلیم کے حصول کے لیے یا مارکیٹ جانے کے لیے گھر سے باہر جاتیں تو بعض مقامی افراد کا توہین آمیز رویہ انہیں پریشان کرتا۔ پولیس کو شکایت کے باوجود مسلمان ہونے اور حجاب پہننے پر الٹا انہیں ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا۔‘

یہی وجہ ہے کہ نبیل نے فیصلہ کیا کہ وہ پولیس سروس جوائن کر کے نہ صرف اس محکمے کے اندر پائی جانے والی سوچ بلکہ امریکی معاشرے میں بالخصوص نائن الیون کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط تصور کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

نبیل کے مطابق: ’پولیس کا اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے میں انہیں سخت ترین رویوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔‘

اس سوال پر کہ امریکہ میں بطور مسلمان، پولیس افسر بننے کے لیے انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، نبیل شائق نے بتایا کہ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے لیے کسی بھی سرکاری محکمے اور اہم عہدے پر آنے میں بہت دشواریاں پیدا ہوئیں، اسی رویے کا انہیں بھی سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے بتایا کہ ’پولیس سروس کے اس اعلیٰ عہدے پر انتخاب لڑنے کے لیے کئی سال محنت کرنا پڑی۔‘

تاہم ان کی اس کامیابی میں ان کے والد کیپٹن ناصر عباسی کا بہت تعاون شامل رہا۔

نبیل شائق کا کہنا تھا کہ جب کئی سال پہلے وہ ٹیکساس کی بڑی آئل کمپنی کے ساتھ کام کر رہے تھے تو انہوں نے پولیس کے اعلیٰ عہدیدار کا انتخاب لڑنے کی خواہش کا اظہار اپنے والد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ’بیٹا یہ تمہارا خواب ہے جس کی تعبیر ناممکن ہے۔‘

نیبل کے مطابق تبھی انہوں نے فیصلہ کیا کہ بھاری معاوضے والی نوکری چھوڑ کر کانسٹیبل کا انتخاب لڑیں گے اور جیتیں گے۔

انہوں نے امریکی ریاست ٹیکساس کے بڑے شہر ہیوسٹن سے انتخاب لڑا اور اپنے مدمقابل امریکیوں اور دیگر قومیتوں کے امیدواروں کو شکست دے کر کانسٹیبل کا عہدہ حاصل کر لیا۔

امریکہ میں کانسٹیبل کا عہدہ کتنا اہم اور اس کی ذمہ داریاں کتنی چیلنجنگ؟

اس سوال کے جواب میں نبیل شائق کا کہنا تھا کہ ’امریکی پولیس محکمے میں فوج کی طرز کے اعلیٰ عہدے تفویض کیے جاتے ہیں جن میں لیفٹیننٹ، کیپٹن اور میجر کا عہدہ بھی شامل ہے۔ مگر ریاستی پولیس کے پاس فوج سے بھی زیادہ اختیار ہوتے ہیں، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہو یا کسی دوسرے جرم کا ارتکاب، پولیس کے پاس گرفتاری اور تفتیش کے اختیارات فوج سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔

’پولیس کا ایک عام اہلکار یا افسر جرائم پر بلا خوف فوجی اہلکار یا افسر کو ہتھکڑی لگا کے گرفتار کر سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’امریکہ میں پولیس نہ صرف امن وامان بلکہ معاشرتی مسائل کے حل اور مختلف قومیتوں کے درمیان یکجہتی کےلیے بھی اپنا کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

’امریکہ کی 50 ریاستوں میں ہر علاقے کی پولیس دو حصوں میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔ ایک کے سربراہ کاؤنٹی شیرف ہوتے ہیں جبکہ دوسرے حصے کے تحت سب سے پہلے پیٹرولنگ افسر اور ڈپٹی کاؤنٹی کانسٹیبل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سپروائزری عہدے شروع ہوتے ہیں جن میں کارپورل، سارجنٹ، لیفٹیننٹ، کیپٹن، میجر، اسسٹنٹ چیف، چیف آف پولیس اور پھر پولیس کانسٹیبل کا عہدہ ہوتا ہے۔‘

نیبل شائق کے مطابق: ’کانسٹیبل کا عہدہ سنبھالنا ہی کامیابی نہیں بلکہ یہاں ہر روز نئے نئے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے اور بطور مسلمان، پاکستانی اور ایشیئن، کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ان کے ماتحت یہاں کے مقامی امریکی اور دیگر قومیتوں کے افسران اور اہلکار کام کرتے ہیں اور ان سب کو ’ساتھ لے کر چلنا بھی ایک دشوار مرحلہ ہے۔‘

امریکہ میں پولیس کے حوالے سے ’طاقت کے غلط استعمال کا الزام‘ بھی لگتا ہے، اس میں کتنی حقیقت ہے؟

نیبل شائق نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ ’اس حوالے سے 170 رہنما اصول قائم کیے گئے ہیں اور ان پر بار بار عمل کی تربیت ایک مسلسل ضابطہ ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی پولیس اہلکار ایسے واقعات میں ملوث ہو تو اس کو دو طرح کے تحقیقاتی عمل سے گزارا جاتا ہے۔

’ایک تو محکمہ پولیس کے اندر سخت احتسابی عمل ہوتا ہے جس میں سائنسی بنیادوں پر تفتیش ہوتی ہے۔ دوسرا قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے جن میں خفیہ ایجنسیاں بھی شامل ہیں، وہ تفتیش کرتی ہیں۔ متعلقہ ملوث افسر کے کیس کا فیصلہ ایک ماہ سے ایک سال کے اندر ثبوت کے ساتھ مکمل کرکے فیصلے پر عمل کروایا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اب بڑی تعداد میں ایشیائی بالخصوص پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان پولیس فورس جوائن کر رہے ہیں۔ اس سے مختلف قومیتوں کے امریکہ میں آباد افراد کو اپنی زبان میں ابلاغ اور اپنے کیسز کے بارے میں زیادہ اعتماد کے ساتھ بات کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

نیبل شائق نے بتایا کہ ان کا تعلق کسی ایک شہر سے نہیں بلکہ پورے پاکستان سے ہے۔ ان کے والد کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ ننھیال کراچی سے ہے۔

پاکستانی پولیس کی تربیت کے حوالے سے نیبل شائق نے پاکستانی وزارت داخلہ اور محکمہ پولیس کو دعوت دی اور کہا کہ ’دونوں ملکوں کے محکمہ جات ہائے پولیس کئی جدید تربیتی اور تکنیکی مہارت میں تبادلوں کا معاہدہ کرسکتے ہیں۔‘ وہ اپنی قابل ٹیم کے ساتھ پاکستان آنے کو تیار ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’پاکستان کی حکومت امریکہ محکمہ پولیس کے ساتھ رابطہ بڑھائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستانی پولیس کی کیا ضروریات ہیں اور ہم ان کی مہارت سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اگر پاکستان میں امن اور تحفظ ہو گا تو اس سے سیاحت و غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو گا۔‘

نبیل شائق لا گریجویٹ ہیں اور نوکری کے ساتھ کریمنل جسٹس میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔

نبیل کے مطابق: ’امریکہ میں پولیس اہلکاروں کو اپنے سخت کام میں سٹریس کے باعث گھروں میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں و افسران میں دل کے امراض بالخصوص ہارٹ اٹیک ہو رہے ہیں۔ خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ سامنے آ رہا ہے اور اس کی وجہ فورس کی کمی اور کام کرنے کے حالات ہیں، مگر اب اس پر بہت کام ہورہا ہے۔‘

نیبل شائق کو امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کی جانب سے بھی اعزازات اور ایوارڈ دیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں محکمے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے اور آئندہ برس بھی وہ کانسٹیبل کے عہدے پر دوبارہ انتخاب لڑ کر کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی