امریکی ریاست ٹیکساس کے نومنتخب پاکستانی اراکین اسمبلی کون ہیں؟

منتخب مسلمان پاکستانی امریکن اراکین اسمبلی ڈاکٹر سلیمان لالانی اور سلمان بھوجانی نے 350 سالہ پرانے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا اور پرانے اور نئے اراکین پارلیمان کی مخصوص  سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

ٹیکساس کے نو منتخب اراکین اسمبلی سلمان بھوجانی اور ڈاکٹر سلیمان لالانی (ٹوئٹر، سلمان بھوجانی)

امریکی ریاست ٹیکساس کو سفید فام امریکیوں کی ریاست کہا جاتا ہے۔

امریکی رپبلکن جماعت کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں بشمول صدر بش، جانسن اور آئزن ہاور کئی  اہم ترین حکومتی عہدیداروں کا تعلق بھی ریاست ٹیکساس سے ہی ہے۔

1845 میں بطور غلام ریاست امریکہ کا حصہ بننے والی ٹیکساس  دیگر امریکی ریاستوں کی نسبت اپنے موسم، کلچر، تہذیب، وسیع وعریض سرسبز میدانی کھلیانوں اورسمندروں و جھیلوں کے حوالےسے انفرادیت رکھتی ہے۔

حالات جیسے بھی تھے جمہوریت پر یقین کا یہ عالم تھا کہ ریاست کے وجود میں آنے اور امریکہ کا حصہ بننے کے فوری بعد پہلا کام ریاستی ایوان زیریں اور سینٹ کےانتخابات کا انعقاد تھا۔

امریکہ کا حصہ بننے کی توثیق کےفوری بعد 1846 میں پہلا ریاستی آئین بنایا گیا۔ ٹیکساس ریاست کا دارالحکومت آسٹن ہے جہاں ریاستی پارلیمنٹ کی پرشکوہ عمارت 1882 سے 1888 کے دوران قائم کی گئی۔

ریاستی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے 31 جب کہ ایوان زیریں کے 150 منتخب ارکان ہیں جن کی مدت محض دو سال ہوتی ہے۔ اس کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ انتخاب لڑنا ہوتا ہے۔

اسمبلی کا سال میں 140 روز اجلاس ہوتا ہے تاہم ریاست کے سربراہ گورنر کسی بھی وقت ازخود یا ارکان کی درخواست پر خصوصی اجلاس بلا سکتے ہیں۔

خالص گوروں کی ریاست کہلانے والی ٹیکساس ریاست کی پارلیمنٹ میں چند سال پہلے تک ایک وقت ایسا بھی تھا جب ایک مسلم امام کو ایوان میں بلایا گیا تو زیادہ تر ارکان نفرت کے اظہار کے طور پر احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے تھے۔  

آج بھی پارلیمنٹ کی عظیم الشان عمارت میں معمول کی کارروائی اور اجلاس تو ہو رہے ہیں مگر تاریخ بدل چکی ہے۔  

اسی پارلیمنٹ میں جہاں مسلمانوں کے بارے میں بات کرنا ہی غلط سمجھا جاتا تھا، دو مسلمان پاکستانیوں کی حالیہ وسط مدتی انتخابات میں شاندار فتح کے بعد آمد نے پورے ماحول اور فضا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

منتخب مسلمان پاکستانی امریکن ارکان ڈاکٹر سلیمان لالانی اور سلمان بھوجانی نے 350 سالہ پرانے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا اور پرانے اور نئے اراکین پارلیمان کی مخصوص  سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

ڈاکٹر سلیمان لالانی اور سلمان بھوجانی نے ایوان پہنچتے ہی ہر طبقے، مذہب، رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے اپنے ووٹرز کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر اجاگر کرنا شروع کر دیا ہے۔

ان کی پذیرائی اس ایوان میں ہو رہی ہے جہاں 911 کے بعد چند سال پہلے تک کوئی پاکستانی پارلیمان کا حصہ بننا تو دور کی بات، داخل ہونے کا بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ ان ارکان نے امریکی ایوان میں مقامی پاکستانیوں کی خدمات کو بھی متعارف کروانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔

چند روز پہلے ایسے ہی ایک پاکستانی غیر سرکاری طبی فلاحی ادارے ابن سینا فاؤنڈیشن کو ریاستی پارلیمان میں ایک قرارداد کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا گیا۔   

خراج تحسین پیش کرنے کی قرارداد رکن ریاستی پارلیمنٹ اور امریکی سیاستدان ڈاکٹر اولیورسن، رون رینالڈ اور حال ہی میں منتخب ہونے والے  پہلے پاکستانی اراکین پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر پیش کی۔

یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کے زیر انتظام چلنے والے رفاہی ادارے کی خدمات کا اعتراف ریاستی پارلیمنٹ میں قرارداد کے ذریعے کیا گیا ہے۔  

قرارداد میں بتایا گیا کہ 2001 میں ڈاکٹر نصر روپانی کی قیادت میں ایک کمرے اور ایک عارضی ملازم سے فلاحی کام شروع کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ابن سینا فاؤنڈیشن ٹیکساس کے تمام طبقات کو طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

اس وقت ابن سینا فاؤنڈیشن کے تقریباً 70 کلینکس میں دس لاکھ سے زائد ضرورت مند علاج معالجے کے غرض سے رجسٹرڈ ہیں جبکہ بہت جلد ہیوسٹن شہر میں ایک سرجیکل آپریشن تھیٹر کھولا جا رہا ہے جہاں سرجن مفت آپریشن کی سہولت فراہم کریں گے۔

امریکہ کے 2022 کے وسط مدتی انتخابات میں مختلف ریاستی اسمبلیوں میں 12 مسلمان ارکان منتخب ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر سلیمان  لالانی اور سلمان بھوجانی دونوں کا تعلق کراچی سے ہے۔

اوائل عمری میں بہترین مستقبل کی تلاش میں امریکہ آنے کے بعد دونوں نے مقامی سطح کےانتخابی سیاسی عمل میں حصہ لینے کے ساتھ مسلسل کئی سال ریاستی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کی کوشش کی اورمہم چلائی۔  

گو کہ ریاست ٹیکساس میں پاکستانیوں کی تعداد 80 ہزار سے ایک لاکھ تک بتائی جاتی ہے تاہم پاکستانیوں کے ووٹ پر انحصار کرنے کی بجائے دونوں اراکین نے مقامی امریکیوں سمیت تمام اقلیتوں کے ساتھ بھرپور رابطوں سے کامیابی سمیٹی۔  

نومنتخب پاکستانی اراکین کے ریاستی پارلیمنٹ  کا حصہ بننے کے فوری بعد مسلمانوں کے لیے عید اور ہندوؤں سمیت دیگر مذہبی تہواروں کے موقع پر چھٹیوں کی منظوری کا بل پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر سلیمان لالانی امریکی پارلیمان کی جانب سے ہائر ایجوکیشن، قدرتی وسائل اور صحت کی پارلیمانی کمیٹیوں کے سینیئر ممبر بنائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر لالانی کا کہنا ہے کہ ٹیکساس ریاستی اسمبلی کے منظور کردہ قوانین کے مطابق ایران اور چین سمیت چار ملکوں کے شہریوں کو ٹیکساس کے ریاستی علاقوں میں کہیں بھی زمین خریدنے اور دیگر کئی اہم امور کی اجازت نہیں ہے، جس کے خلاف وہ پارلیمنٹ  میں آواز اٹھا رہے ہیں اور ایک اصلاحاتی بل متعارف کرانے جا رہے ہیں۔

اس بل میں ان کا موقف ہے کہ اپنے ملکوں سے مشکل حالات کے باعث نقل مکانی کر کے آنے والوں کو امریکہ میں آزاد شہری کی حیثیت سے ان کے آبائی ملکوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور نہ کیا جائے، اور انہیں وہ جائز حقوق دیے جائیں جو امریکی آئین کے مطابق کسی بھی ملک کے شہریوں کو حاصل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ یہاں پارلیمان میں پاکستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔

ڈاکٹر لالانی نے قران شریف کے تاریخی حوالوں پر مبنی ایک ڈاکومینٹری بنانے کا آغاز بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک ماہ کے مختصر عرصے میں تعلیم، صحت، ڈومیسٹک وائلنس کی روک تھام، مذہبی ہم آہنگی، صنفی تضاد کے خاتمے اورگن کنٹرول کے بل ایوان میں پیش کیے ہیں۔  

ان بلز کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ پارلیمانی قواعد و ضوابط کے تحت ایوان میں پیش کردہ بل 10 مارچ سے متعلقہ  کمیٹیوں کو بھجوائے جا رہے ہیں جن پر بحث کے بعد منظوری دی جائے گی اور انہیں ایوان بالا بھجوا دیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایوان بالا سے منظوری کے بعد گورنر ریاست ٹیکساس منظوری دیں گے اور پھر وہ بل قانون میں تبدیل ہو جائیں گے۔

 سپیکر آفس سے ملنے والی معلومات کے مطابق ریاستی ممبر اسمبلی ڈاکٹر لالانی اور سلمان بھوجانی نے اپنے متعلقہ دفاتر میں نوجوان پاکستانی طلبا کو انٹرن شپ کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ دیگر قومیتوں کے امریکی شہریوں کو پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھنے کے لیے بھی مدعو کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر سلیمان لالانی کے مطابق ان کے ان اقدامات سے آنے والے برسوں میں امریکہ مقیم پاکستانی اور دیگر اقوام کے افراد کی امریکی سیاست میں دلچسپی بڑھے گی اور مقامی، ریاستی اور قومی پارلیمان کے الیکشن میں حصہ لینے کا جذبہ بھی پروان چڑھے گا۔

امریکہ کے منتخب اراکین اسمبلی کو عوامی ٹیکسوں سے بنائے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے جواب دہی کے سخت عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہیں ترقیاتی فنڈز نہیں ملتے۔ رہائش، بجلی، گیس،  ٹیلی فون، گاڑیاں، ڈرائیور، جہاز کے ٹکٹ یا کوئی بھی مفت سفری سہولیات تو درکنار، پارلیمان میں ملنے والے آفس کے اخراجات بھی خود جیب سے ادا کرنا ہوتے ہیں۔  

ٹیکساس کے اراکین ریاستی اسمبلی کے لیے سال کے 140 دنوں کی حاضری ضروری ہے۔ ہر رکن کو پارلیمانی خدمات کا اعزازیہ 7200 ڈالر سالانہ یعنی 600 ڈالر سالانہ ملتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ